ٹیکنالوجی 2035 قسط 2

ابھی فیس بک دیکھنے میں ہی مصروف تھا۔ کہ میرے آفس کے روبوٹ نے مجھے اطلاع دی ۔ کہ سر آپ کی میٹنگ ہے۔ اپنے اس آفس کے روبوٹ کے بارے میں تو میں بتانا ہی بھول گیا۔ یہ میرا سیکرٹری، اکاؤنٹنٹ، سییکیورٹی گارڈ اور پیون سب کچھ تھا۔ حساب کتاب،اکاؤنٹنگ رپورٹس بنانے میں ماہر تھا۔ آج کل کے دور میں کام کاج کے لئے انسانوں کی بجائے روبوٹس نے جگہ لے لی تھی۔ دس انسان مل کر جو کام کرتے تھے ۔ وہ ایک روبوٹ ہی کر لیتا تھا۔اسلئے لوگ زیادہ تر اب آفس ورک کے لئے بھی روبوٹ رکھ رہے تھے۔ ویسے تو اسکام نام اومیگا تھری پوائینٹ تھا۔ لیکن میں اسے زیادہ تر گامو ٹرمینیٹر کہا کرتا تھا۔ اسمیں صرف 2 ایگزا بٹ (بیس لا کھ ٹیرا بائٹ ) تھی۔ اور اکثر اسکی میموری فل ہوجاتی رھی سوچ رہا تھا۔ اب 8 ایگزابٹ کی ہارڈدسک لے ہی لوں۔ لوگ تو آج کل 32 ایگزابٹ سے بھی خوش نہیں ہوتے تھے۔ اور اسکی ریم بھی بس 2 ٹی بی تھی۔۔، پروسیسر بھی آئی 33 کی سیکنڈ جنریشن سے تعلق رکھتا تھا۔ ۔ لیکن خیرکام کا اتنا بوجھ نہیں تھا اسلئے گذارا ہو جاتا تھا۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی میٹنگ کی ۔ اور اس میٹنگ کا تو میں شدت سے انتظار کر رہا تھا۔ ٹھیک اسی وقت میں سکائپ پر کال آنی شروع ہو گئی میں نے فوراٌ اپنے بال وغیرہ سیٹ کئے۔ سکن فریشنس سپرے چہرے پر کیا اور گامے سے پوچھا۔ کیسا لگ رہا ہوں۔ گامے نے آنکھ مار کر کہا سر بہت فٹ اور ہینڈ سم لگ رہے ہیں۔ بس یہ پیٹ اندر کی طرف ہی رکھیں، آج کل بہت پھیلتا جا رہا ہے۔ میں نے بیلٹ کو مزید کس لیا اور سکائپ کو آن کردیا۔
اور اگلے لمحوں میں وہ نازنین میرے سامنے تھی۔ یہ سائنس نے بھی ابھی تک اتنی ترقی کیوں نہیں کی؟کہ کوئی بھی میلوں دور سے غائب ہو کر آپ کے سامنے آجائے۔لیکن میرے لئے یہ بھی کافی تھا۔ کہ وہ میرے سامنے تھی تھری ڈی لہروں کی شکل میں ۔ آج تو اس نے کمال کا ڈریس پہنا تھا۔ دل کر رہا تھا۔ کہ اس پر پھولوں کے سمائلی نچاور کردوں۔ لیکن اف یہ ۔۔۔ پروفیشنل میٹنگز ۔
اسکا نام سارہ جونسن تھا لوس اینجلس سے اس کا تعلق تھا۔ اور اسے اپنے کلائنٹس کے لئے کچھ روبوٹک پروگرامز بنوانے تھے۔ اور کچھ روبوٹس میں کچھ مسائل تھے انہیں بھی ٹھیک کروانا تھا۔ خیر سے یہ سارا کام گاما ٹرمینیٹر کرلیا تھا ۔میں صرف کلائیٹس کے ساتھ ڈیلنگ کیا کرتا تھا۔
سارہ نے پہلے تو مجھے دیکھا پھر آفس کو دیکھا۔ واو ۔ آسم آج ٹو ٹم نے آفس کو بہٹ سجھا کر رکھا ہے۔
سارہ کی اردو سن کر بہت مزہ آتا تھا۔ وہ خود اردو نہیں بولتی تھی بلکہ ٹرانسلیٹر اس کو اردو میں کنورٹ کر دیتا تھا۔ میں نے نظریں بچا کر گامے کو آنکھ مار کر گذ کا اشارہ دیا۔ اور وہ کسی گامے پہلوان کی طرح بتیسی نکال کر مسکرا ٹھا۔
یہ سب میرے اس روبوٹ کا کمال ہے۔ اور یہی میرا اسسٹنٹ اور پارٹنر ہے۔ اور آ ج تک اس نے کسی بھی روبوٹ کا کوئی بھی ایرر ٹھیک کئے نہیں چھوڑا، اسکو 150 پروگرامنگ زبانیں آتی ہیں۔
اوہ ۔۔۔ واو۔۔۔ اٹس امیزنگ۔۔۔ واٹس یور نیم ۔۔۔مسٹر ۔۔
میرا نام اومیگا تھری پوائینٹ ون ہے۔ نام پرانا ہے ،لیکن سسٹم اے ون اور لیٹسٹ ہے۔ 64 ایگزابٹ کی ہارڈدسک، 32 ٹی بی ریم اور آئی 46 پروسیسر۔
اوہ واو۔۔ میں بھی اپنے روبوٹس کو اپ گریڈ آپ سے ہی کرواں گی۔
اسی دوران کن آنکھیوں سے اور غصے سے گاما مجھے دیکھ رہے تھا۔ اور ائر پیس میں ہلکے سے بولا۔ ابے کب تک جھوٹ بلوائے گا۔ میرا سسٹم ہی آپ گریڈ کروادو ۔، میرے یار دوست روبوٹ میری اس غربت پر بہت ہنستے ہیں۔ اور میرا بہت مذاق اڑاتے ہیں۔ میں نے کہا صبر کر گامے ۔ یہ آڈر بس مل جائے۔ پھر دیکھنا تمھیں فل آپ گریڈ کردوں گا۔
اوکے پھر ڈن ۔۔۔میں بولا
یس ڈن۔۔۔
تو پھر میں کب آؤں اپکی طرف۔ ۔۔
ویل آپ کو آنے میں چار پانچ گھٹہ تو لگ جائے گا ۔ آپ کل آجائیں،
ٹھیک ہے ، مس سارہ ۔تو میں کل لوس اینجلس آپ کی طرف آجاؤں گا۔
ویسے شام کو آپ فری ہوں گی۔۔۔۔
گامے نے ایک بار پھر گھور کر دیکھا، اور کانوں میں سرسرایا۔ سربزنس پر توجہ دیں،بزنس پر۔۔۔ آپ کی دل کی دھڑکن کچھ عجیب سے انداز میں تیز ہو رہی ہے۔ اور خون کی روانی بھی تیز ہوگئی ہے۔ ایسے ویسے چکر چھوڑیں۔۔
فار واٹ۔۔ سارہ نے کہا۔
میرا مطلب ایسا کرلیتے ہیں کہ دوبئی میں شام کو مل لیتےہیں۔ میرے دوست جمال سلیم کا وہاں فائیو سٹار ہوٹل ہے۔ اور وہاں کی کافی بہت اچھی ملتی ہے۔ وہاں ہم بزنس کے بارے میں مزید ڈسکس کر لیں گے۔اور اس دوران ٹیبل کی دراز میں رکھے فری ٹاپ اپ کوپنز کو دیکھا جو جمال سلیم نے اپنے دوبئی کے ہوٹل کے افتتاح کے موقع پر فری میں دوستوں میں تقسیم کئے تھے۔اور میں نے بھی اسلئے بچا کر رکھے تھے ۔ کہ کوئی تو ہم پر بھی مہربان ہوگا ۔۔
گاما ایک بار کانوں میں بولا ۔تو نہیں سدھرے گا۔
سارہ بولی ۔ویل ۔۔۔ سوری شام کوتو میں بزی ہوں ۔ لیکن ہاں لوس اینجلس میں آپ کے ساتھ کافی ضرور پیوں گی۔ اوکے ملتے ہیں پھر ٹو مارو، سی یو ۔۔ بائے۔۔۔اور سکائپ تھری ڈی کال آف ہوجاتی ہے۔
بائے۔۔میں نے بھی ہاتھ ہلایا ۔ اور دل پر ہاتھ رکھ کر کہا ہائے۔۔۔۔۔ یہ گوریاں بھی پاکستانی لڑکیوں کی جیسی ہوتی ہیں ۔ جلدی لفٹ ہی نہیں کرواتی۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
از قلم: مراد خان

اپنا تبصرہ بھیجیں