آئی ٹی کی تعلیم اور موجودہ دور کے تقاضے
آج کل آئی ٹی میں دو قسم کے لوگ ہیں۔ایک ڈگری ہولڈرز اور دوسرے وہ لوگ جو ضرورت اور شوق کی وجہ سے آئی ٹی میں آئے۔
مجھ سے اکثر دوست پوچھتے ہیں۔ کہ میں بی ایس سی کرلوں بی ایس آئی ٹی کرلوں یا کونسی کمپیوٹر ڈگری بیسٹ رہے گی۔
اور میں سوچ میں پڑھ جاتا ہوں کہ بندے کو کیا جواب دوں۔ کیوںکہ میں خود کامرس کا سٹوڈنٹ رہا ہوں ۔ لیکن شوق کی وجہ سے آئی ٹی میں آیا ہوں۔
اس وقت آن لائن آئی ٹی کے حوالے سے جتنےبھی ٹاپ کے آئی ٹی ایکسپرٹس ہیں۔ ان میں زیادہ تر وہی ہیں۔ جو ضرورت اور شوق کی وجہ سے آئی ٹی میں آئے تھے ۔اور آج وہ فیس بک پر ستاروں کی طرح جگما رہےہیں۔ اور یہاں تک کہ کمپیوٹر میں گریجویٹ اور ماسٹر کرنے والے انکے شاگرد ہیں۔
بہت سی وجوہات ہیں ۔ جو میرے ذہن میں آتی ہیں اور ان کا سدباب بہت ضروری ہے۔ورنہ ہم لوگ آئی ٹی میں بہت پیچھے رہ جائیں گے۔
سب سے پہلی وجہ جو ہے۔۔ وہ ہے شعور: انٹر نیٹ سے پیسے کمانا اسکا شوق اور اسکی ضرورت تو سب کو ہوتی ہے۔ لیکن اصل چیز شعور ہوتا ہے ۔ نئے آن لائن آنے والے اور کالجز میں پڑھنے والے زیادہ تر شوق یا ضرورت کی بناہ پر آئی ٹی میں آتے ہیں ۔ لیکن شوق اور ضرورت بدل بھی سکتے ہیں۔ لیکن جب تک انہیں اس چیز کا شعور نہیں ہے۔ کہ آئی ٹی کیا ہےاور آئی ٹی میں ہی کیوں آنا چاھتے ہیں، تب تک وہ آئی ٹی کو صرف ایک نصاب اور پیسے کمانے کی مشین سمجھیں گے۔ بحیثیت مسلمان اور پاکستانی آئی ٹی ہمارے لئے ایک ہتھیار ہے۔ایک امید ہے ایک روشنی ہے۔ آگے بڑھنے کی۔ پاکستان کی ترقی کی۔ اور ہمارے بہرین مستقبل کی۔
نیٹ سے صرف پیسے کمانا ہی سب کچھ نہیں ہیں۔ آئی ٹی کا شعور حاصل کرنا ، نئے لوگوں کو سیکھانا اور انہیں آئی ٹی کی طرف مائل کرنا اور آئی ٹی کا شعور دلانا بھی ضروری ہے۔ ورنہ ہر بندہ آئی ٹی کا غلط استعمال کرے گا۔ پیسے کمانے کے لئے ہمیشہ شارٹ کٹس اور غلط ذرائع استمعال کرے گا۔
پاکستان اس وقت آئی ٹی میں اپنے مد مقابل ممالک سے بہت پیچھے ہے۔ حالانکہ ہمارے پاس اس وقت تمام سہولیات میسر ہیں۔ تھری جی انٹرنیٹ موجود ہے۔ سمارٹ فونز ہیں، بلکہ آ ج کل تو پانچ چھ ہزار میں اچھا سیٹ مل جاتا ہے۔ اور پانچ چھ ہزار میں ہی ایک اچھا خاصا ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر بن جاتا ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان آئی ٹی میں کیوں پیچھے ہے اور وجہ یہی ہے شعور۔۔۔۔ جو ہمارے پاس بہت کم ہے۔
دوسری اہم وجہ رہنمائی ہے۔ہمیں میٹرک کرنے کے بعد پتہ نہیں ہوتا۔ کہ کونسی فیلڈ سیلیکٹ کرنی چاھئے۔ جو ماں باپ نے کہ دیا یا دوستوں نے مشورہ کرلیا ہم وہی فیلڈ سیلیکٹ کرتے ہیں۔
کچھ لڑکے اپنے سے سینئرز سے بھی مشورہ کرتے ہیں۔ اب سینئرزنے جو مضمون رکھا ہوتا ہے۔ وہ تو اسی کے بارے میں ہی بتائے گا۔ اگر وہ سینئرزپڑھائی میں لائق ہوا تو وہ کہے گا۔ یہی مضمون رکھ لو۔ بہت آسان ہے۔ اسکی انٹریاں اسکے سوال یوں یوں چٹکیوں میں حل ہوجاتےہیں۔ اور اگر سینئرزنالائق ہوا یا اس مضمون کو اس نے مجبوری سے رکھا ہو، وہ تو یہی بولے گا نہ بھائی یہ مضمون نہ رکھنا میں خود بڑی مشکل سے پاس ہوا ہوں۔۔ تو، تو سیدھا فیل ہوگا۔ لکھ کے رکھ لے
اصل میں ہماری عوام کو ایک ہی بھیڑ چال چلایا جا رہا ہے ۔جہاں ڈگریاں اور نمبر ہی اہمیت رکھتے ہیں۔ جہاں سب کے بچے ڈاکٹر یا انجئینر ہوں ۔ میٹرک تو سائنس کے ساتھ لازمی ہے۔ نہیں تو جاب نہیں ملے گی۔ ڈگری کی ویلیو نہیں ہوگی۔ جاب میں بھی پوچھاجاتا ہے۔ اچھا بی کام کیا ہے۔ گڈ۔۔۔ میٹرک سائنس کے ساتھ یا آرٹس کےساتھ ۔۔؟ اچھا سمپل ۔اوکے تم جاؤ تمھیں پھر کبھی بلا لیں گے۔
جو بچے میڈیکل کی کتابوں کے سوال حل نہیں کر پاتے ۔لیکن دل گردے کا ڈائیا گرام خوبصورت بنا لیتے ہیں۔ یقینا ان کے اندر کوئی آرٹس چھپا ہوا ہوتا ہے۔ کچھ بچے ریاضی میں کمزور ہوتےہیں ۔ لیکن اپنی کلاس کے مرزا غالب ہوتے ہیں۔ اور شاعری میں کمال کا ذوق رکھتے ہیں۔ کچھ بچے بچپن سے ہی پیچ کس لیکر کھلونوں کا آپریشن کرتے رہتے ہیں لیکن حالات انہیں انسانوں کاآپریشن کروانے پر مجبور کروایتے ہیں۔
نہ تو ہمارے ہاں میٹرک یا میٹرک سے پہلے کوئی تعلیمی سیمینار، یا شعوری پروگرام ہوتا ہے۔ جس میں بچوں کو یہ بتایا جائے کہ انکے لئے مستقبل میں کونسا مضمون بہتر رہے گا۔ اور نہ ہی بچوں کی دلچسپی اور نفسیات پر توجہ دی جاتی ہے۔ کہ وہ بچے کیا ہیں۔ قدرت کی طرف سے انکو کیا خصوصیت دی گئی ہے۔ جو انکے کو اپنی فیلڈ میں ہمیشہ کامیاب اور کامران رکھ سکتی ہیں۔ میری نظر میں نالائق کوئی نہیں ہوتا۔ ہاں پیدائشی کند ذہن ہو بیمار ہو تو اور بات ہے۔
آئی ٹی ایک بہت وسیع فیلڈ ہے اوراسمیں بھی کافی مضامین ہیں جس کے حوالے سے مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے۔کہ ہم کونسا مضمون منتخب کریں۔ یا کس چیز میں زیادہ سکوپ ہے۔ اب اگر میں ویب ڈیویلپر ہوں۔ میں تو یہی کہوں گا۔ یار ویب ڈیولپمنٹ میں آجاؤ۔ بڑا کام ہے فائیور پر اور فری لانس ویب سائٹس پر۔ انڈروئیڈ ڈیولپمنٹ والا کہے گا۔ جاوا سیکھو۔ آ ج کل بہت سکوپ ہے۔ ایس ای او والا کہے گا۔ سب کچھ چھوڑو ۔ ایس ای او سیکھو ، راتوں رات امیر ہوجاؤ گے۔ اب وہ بندہ کبھی ویب ڈیلوپمنٹ کی طرف آئے گا۔ کبھی جاوا سیکھنے کی کوشش کرے گا۔ کبھی ایس ای او سیکھے گا لیکن کامیاب کسی میں بھی نہیں ہو سکے گا۔ کیوں کہ جس چیز میں دلچسپی ہی نہیں ۔ وہ کیسے اسے مسقل کر سکے گا۔ اور سکوپ توہر چیز کا ہوتا ہے۔ لیکن ہاں اسکا پلیٹ فارم الگ ہوتا ہے۔
سر میں کونسی فیلڈ سیلیکٹ کروں۔ یہ سوال مجھ سے نہیں۔ اپنے دل سے پوچھنے والا سوال ہے۔ یہ دل بھی آپکا باس ہی ہے۔ کیوں کہ کرنا تو آپ نے اسکی ہی مرضی سے ہے۔ تو اس سے پوچھ کر دیکھو،۔ جو دل کہے گا۔ وہی فیلڈ سیلیکٹ کرنا وہی کام کرنا۔ دل سے پوچھ کر نہیں کیا تو کام میں دل ہی نہیں لگے گا۔
ہاں دماغ کو مشورے کےلئے ضرور رکھیں۔ اسے مختلف مضامین، اور فیلڈز کی چانچ پرتال اور علم میں اضافے کے لئے رکھیں۔ اپنے دل کو بتائیں مارکیٹ میں یہ فیلڈز ہیں۔ ان فیلڈز کا علم حاصل کریں۔ کہ وہ کیا ہیں، ان پر کام کسیے کیا جاتا ہے۔ اور پھر اس دل سے اس اپنے باس سے پوچھیں۔۔
بتا تیری رضا کیا ہے۔۔۔۔۔۔
تیسری چیز سلیبس ہے۔ہمارے آئی ٹی کا سلیبس وہی ہے۔ جو آج سے دس بیس سال پہلے بنا تھا۔ ہاں یہ کہ سکتے ہیں۔ کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان میں نئی چیزیں بھی شامل ہو رہی ہیں۔ لیکن اولا تو یہ تب شامل ہوتی ہیں جب پانی سر سے گذر چکا ہوتا ہے۔ یا ہمارے اساتذہ کو اسکے بارے میں مکمل معلومات نہیں ہوتی اور وہ زیادہ تر اسکو سکپ کر جاتے ہیں۔ آئی ٹی ایک پریکٹیکل نصاب ہے۔ لیکن زیادہ تراسکو تھیوری کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ ہفتے میں ایک دو کلاسس پریکٹیکل کی ہوگئی باقی کام سٹوڈنٹس پر چھوڑ دیا۔ یہ بات کافی خوش آئیند ہے۔ کہ یونیورسٹی لیول پر اب سلیبس کے حوالے سے کافی بدلاؤ آرہا ہے۔اور نئے مضامین بھی اسمیں شامل کئے جا رہے ہیں۔ اور مجھے امید ہے انشاء اللہ اس سے آئی ٹی کی فیلڈ میں کافی ترقی ہوگی۔
پروگرامنگ لینگویجز کی اگر بات کی جائے تو آئی ٹی میں اسکی مثال ریڑھ کی ہڈی جیسی ہے۔ لیکن اکثر طلباء اس کو صرف امتخان میں پاس ہونے کے لئے پڑھتے ہیں۔ اور پروگرامنگ لینگویجز ایسی چیز ہے کہ اگر یہ آپ کے پریکٹس میں نہ رہے تو یہ بہت جلد بھول جاتی ہیں۔ زیادہ تر طلباء اسے سوفٹ وئیر ہاؤس میں جا کر دوبارہ سیکھتے ہیں۔ اور خود میرا تجربہ ہے۔ کہ کمپیوٹر ڈگری میں ماسٹر مجھ سے ویب سائٹ بنوانا چاہ رہا تھا۔ بقول اس کے ویب سائٹ تو میں بھی بنا لوں گا۔ لیکن آپ لوگ ماشاء اللہ سے ایکسپرٹ ہو۔
چوتھی چیز ، خود استاد ہیں۔ میں سب کی بات نہیں کر رہا ۔ماشاء اللہ ان میں ایسے بہت سے ہیں جو آئی ٹی میں کافی نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ لیکن ایسے بھی ہیں۔ جو شاید مجبوری کی وجہ سے ہی آئی ٹی پڑھا رہے ہیں۔ اور انہوں نے اتنا ہی پڑھانا ہوتا ہے۔ جتنا انکو خود آتا ہے۔ جو آئی ٹی کو صرف ایک نصاب ہی سمجھتے ہیں۔ہمارے اداروں میں ابھی بھی ایسے اساتذہ ہوں گے ۔ جنہوں نے ابھی تک ایس ای او اور ورڈپریس کا صرف نام ہی سنا ہوگا۔ آئی ٹی دوسرے مضامین سے اس لحاظ سے مختلف ہے ۔ کہ وقت کے ساتھ اس میں بہت سی نت نئی چیزیں آرہی ہیں، پروگرامنگ تو بنیاد ہے۔ اب تو ہر لینگویج کے نئے نئے فریم ورک آرہے ہیں۔ اسلئے استاد کو اس فیلڈ میں رہ کر مزید بھی ریسرچ کرنی چاھئے ،تا کہ موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق وہ اپڈیٹ رہے۔اور اپنے سٹوڈنٹس کی بھی صحیح طرح سے آئی ٹی کے بارے میں رہنمائی کر سکے.
از قلم: مراد خان