رومن آرکیٹیکچر کی مختصر تاریخ

ایک رومن سول سرونٹ نے اہرام مصر کو دیکھ کر کہا تھا کہ “ بلاشبہ یہ پائیداری میں بہت خوب ہے لیکن افادیت میں اس کا ہماری پبلک ورکس سے کیا مقابلہ جن سے لاکھوں لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہے؟”
رومن آرکیٹکچر کی فلاسفی “ افادیت، پائیداری اور حسن” تھی اسی ترتیب کے ساتھ ہر پہلو کی اہمیت۔
اب ذرا رومن ایمپائر کو چھوڑ کر دنیا کے باقی آثار قدیمہ پہ نظر ڈال کر انکو کیٹگرائز کریں۔ ان میں مذہبی عمارات ، بادشاہوں کے قلعے، محلات اور مزارات و مقبروں کی اکثریت ملے گی۔ پبلک ورکس انفراسٹرکچر کی کیٹیگری کم ہی ملے گی۔ اب ذرا رومن ایمپائر کے آثارات پہ بھی نظر ڈالیں۔ ان میں پبلک ورکس کو چھوڑ کر باقی سب کیٹیگری کے کھنڈرات بہت کم ملیں گے۔ یعنی اصولاً رومن کھنڈرات بہت کم ہونا چاہییں لیکن معاملہ الٹ ہے رومن آثار قدیمہ کسی بھی سلطنت سے بہت بہت زیادہ موجود ہیں ۔

یہاں ایک دلچسپ تضاد سے ہمارا سابقہ پڑتا ہے اپنے عروج کے دور میں رومن ایمپائر دنیا کی آبادی کے چوتھائی حصہ پہ حکومت کرتی تھی جبکہ چینی شہنشاہیت اپنے عروج کے دور میں بھی دنیا کی چوتھائی آبادی پہ ہی۔ لیکن جہاں چینی شہنشاہ کا محل ایک پورا الگ شہر تھا اپنی ذات میں وہاں سیزر آگسٹس، تائبریس، ہیڈرین اور مارکوس اوریلئس جیسے شہنشاہ کا بھی کوئی شاہی محل نہ ہوتا تھا بلکہ سب اپنے اپنے آبائی گھر یا ولاز میں رہتے رھے وہ اپنی ذاتی رہائش سے آکر سینیٹ کی عظیم الشان عمارت میں حکومت چلاتے تھے۔ اسی طرح انکے مقبروں کے بھی نشان موجود نہیں۔ لیکن رومن ایمپائر کے ہر اہم شہر کی اہم چوک یا فورم جو بعد میں پلازا کہلایا پہ اس رومن شہنشاہ کا جلیل القدر مجسمہ ضرور ہوتا تھا۔ البتہ روم کی پبلک عمارات بشمول سینیٹ، عبادت گاہیں، تھیئٹر ، کھیل کے میدان، سڑکیں ، پُل اور پلوُں پہ قائم نہریں( aqueduct ) شہری آبادی کو پانی کی فراہمی اور نکاس کے نظام کی تعمیرات اتنی مضبوط تھیں کہ آج بھی لوگ ان سے استفادہ کر رہے ہیں کھنڈرات کی موجودگی الگ۔
سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ اس تضاد کی وجہ کیا؟
ایک چینی مورخ کا تبصرہ دلچسپ ہے جو کہتا ہے کہ
چین ماضی میں ہمیشہ مغرب سے آگے رہا لیکن رومن ایمپائر کے دور میں یہ توازن بدل گیا اس کے بعد ہمیشہ مغرب ہی چین سے آگے رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عین اس وقت جب مغرب میں رومن ایمپائر آئی تو چین میں کنفیوشس آگیا۔ کنفیوشس نے یہ نظریہ دیا کہ اچھے ( ہمارے ہاں برصغیر ہو یا مسلم دنیا میں نیک ) فرد کی ضرورت ہے جب اچھا/نیک فرد حکومت سنبھالے گا تو سب اچھا کرے گا۔ لیکن عین اسی وقت رومن ایمپائر نے یہ اصول اپنایا کہ فرد کا اچھا یا برا نیک یا بد ہونا اس کا ذاتی معاملہ ہے دراصل یہ قانون یا اصول ہوتے ہیں جن پہ کوئی پورا اترے تو اچھا ہے نہ پورا اترے تو برا گویا فرد کی ذات کا اچھا برا نیک بد ہونا غیر اہم ہے بلکہ یہ قانون اور ادارے ہیں جو اہم اور مقدم ہیں ہر شخص قانون کی چھالنی سے چھاننا ہوگا کہ وہ اس عہدہ کے اہل ہے یا نہیں؟
چینی مؤرخ کہتا ہے کہ اس کے بعد چین ہمیشہ مغرب سے پیچھے رہا کیونکہ رومن ایمپائر کا یہ اصول آفاقی تھا۔
یہی وجہ رہی کہ روم کی جمہوریت بھی ختم ہوجانے کے بعد شہنشاہیت کے دور میں بھی جب شہنشاہ کسی حکم پہ مہر لگاتا تھا تو اپنے نام کی نہیں بلکہ SPQR اس پہ لکھا ہوتا تھا انکے جھنڈے کی طرح جس کا مطلب تھا “ روم کی سینیٹ اور پبلک کے نام پہ “ یعنی شہنشاہیت میں بھی شہنشاہ تسلیم کرتا تھا کہ اس کا اختیار اس کا ذاتی اختیار نہیں بلکہ روم کی سینیٹ اور عوام کا تفویض کردہ اختیار ہے جو وہ انکے نام پہ استعمال کررہا ہے۔ روم کا اصل کارنامہ طاقت اور اختیار کو شخصی کی بجائے قانون اور ادارہ جاتی بنانا تھا اور یہ کام انہوں نے قرون وسطیٰ سے بہت قبل عہد قدیم میں ہی کردیا تھا۔رومن عدالتیں آزاد تھیں یہی وجہ ہے کہ انکا مرتب کی گئی فقہ یا جیوررسپروڈنس سے اینگکو سیکسن لا بھی استفادہ کرتا ہے۔
بہرحال اب ہم اتے ہیں براہ راست رومن آرکیٹیکچر پہ۔ سب سے قبل یہ روم اور یمن تھے اور غالباً قرطاجنی جنہوں نے مکان کی بجائے چار پانچ چھ منزلہ فلیٹس کی اجتماعی بلڈنگز بنائیں۔ یمن میں یہ مٹی کی عمارتیں اس لئے محفوظ رہ گئین کہ موسم خشک تھا۔ یورپ میں چونکہ موسم سرد اور مرطوب تھا تو انکا آرکیٹیکچر بھی مختلف تھا وہ مٹی اور گارا کی بجائے پتھر استعمال کرتے تھے اور گارا کی بجائے اس دور میں انہوں نے سیمنٹ ایجاد کر لی تھی جو ہماری سیمنٹ سے اس لئے زیادہ طاقتور تھی کہ اس میں آتش فشانی راکھ کا استعمال کرتے تھے رومن تعمیر میں مضبوط بنیاد کو بہت اہمیت دی جاتی تھی حتی کہ سڑک کی بھی بنیاد اتنی طاقتور اور وسیع تھی کہ ہم آج بھی اتنا خرچہ افورڈ نہیں کر سکتے۔ سڑک یا کسی بھی عمارت کو بنانے سے قبل وہ اس کی بنیاد کئی گنا وسیع بناتے تھے۔
اسی طرح پتھر کی تعمیر میں پتھر کو پتھر سے جوڑنے کے لیے جہاں سیمنٹ تو استعمال ہوتا ہی تھا لیکن جوڑ کو پائیدار بنانے کے لئے ہر دو پتھروں میں ایک جیسی جھری ڈال کر اس میں پگھلا ہوا لوہا ڈال دیا جاتا تھا جو ان دو پتھر کی سلوں کو ہلنے نہ دیتا تھا اس پتھر کی دیوار کی اس لائن کو سیمنٹ سے ڈھانپ کر اگلی لائن بنائی جاتی تھی۔ رومن مندر پینتھیون pantheon انکے کمال ہنر کا شاہکار ہے یہ دنیا کا واحد کنکریٹ کا گنبد ہے جو ری انورفورسڈ بھی نہیں اور اب تک قائم ہے ڈھائی ہزار برس سے۔ جبکہ اس وقت رومنز کو کنکریٹ کو لوہے کے سریا سے ری انفورس کرنا بھی نہ آتا تھا، ویسے یہ تو دنیا نے انیسویں صدی میں سیکھا، تو اس وقت پانتھیون کے گنبد کی تعمیر انہوں نے اس طرح کی کہ ابتدا میں بھاری پتھر کا کنکریٹ استعمال کرتے کرتے جس طرح اوپر جاتے گئے ہلکے پتھر کا استعمال شروع کردیا اور آخر میں وہ آتش فشانی پتھر استعمال کیا جو اتنا ہلکا تھا کہ پانی میں بھی تیر سکتا تھا۔ اسی لیے وہ آج بھی قائم ہے ڈھائی ہزار سال بعد
اسی طرح کا معاملہ انکی سڑکوں کا تھا۔ پورے مغربی یورپ میں انہوں نے سڑکوں کا جال بچھا دیا اور ہر سڑک روم کی طرف جاتی تھی جس پہ یہ محاورہ مشہور ہوا کہ
All roads leads to Rome
ہر سڑک کی بنیاد اس کی چوڑائی سے دگنا تھی اور گہرائی میں کئی گنا جس میں ابتدا سے موٹے پتھر ڈال کر اسے رفتہ رفتہ چھوٹے پتھروں کی لیئر سے تبدیل کرتے آخر میں پتھر کی سلوں سے ڈھانپ دیتے۔ یہ رومن سڑکیں آج بھی مستعمل ہیں خصوصاً روم کوٹسکنی کے صوبہ سے ملانے والی سڑک جسے ایپین وے یا via Roma Apia کہا جاتا تھا یہ سڑک ڈھائی ہزار سال سے استعمال ہو رہی ہے۔ رومن تعمیرات کی بڑی خوبی انکا مینٹیننس فری ہونا ہے۔ انکی تعمیرات کو سالانہ مرمت کی ضرورت نہ پڑتی تھی اسی لئے براقرار رہیں ماسوائے اس کے کہ قرون وسطیٰ میں لوگ انکا عمارتی پتھر چراتے رہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں