ٹیکنالوجی 2035 قسط 3
سارہ سے میٹنگ کے بعد گامے کے ساتھ کل کے پروجیکٹ کے لئے کچھ ڈسکشن کی ۔ اور کل کی فلائٹ کے لئے لائحہ عمل بنانے لگا۔
ٹیکنالوجی کے اس دور میں پوری دنیا اب ایک گلوبل ویلج بن چکی تھی۔ بہت سے ایسے مشترکہ پروجیکٹس بن چکے تھے۔ جس میں پوری دنیا
کے ممالک نے حصہ لیا تھا۔ ایک ملک سے دوسرے ملک جانا اب بہت آسان ہوگیا تھا۔ ویزے اور پاسپورٹ کے حصول کے لئے بھی کوئی مسئلہ نہیں رہا تھا۔ہاں سیکیورٹی اب کچھ بڑھ گئی تھی۔ آپ کےپاسپورٹ کی چپ دوسرے ملک میں جا کر خود بخود ایکیٹیو ہوجاتی۔ اور آپ کی لوکیشن اور سرگرمیوں کے حوالے سے دوسرا ملک بخوبی با خبر رہتا تھا۔
اس وقت دنیا کے کسی بھی کونے میں سفر کرنے کے دو بڑے ذرائع ہیں۔ ہائیپر لوپ سپر سونک ٹرین اور سپر ائر بس ۔ پاکستان سے لو س اینجلس کا فاصلہ 12600 کلومیٹر ہے۔ ٹرین سے مجھے ،6 7 گھنٹے لگ جانے تھے۔ اور سپر ائیر بس سے چار گھنٹے میں۔ میں لوس اینجلس پہنچ سکتا تھا۔
لیکن میں نے ٹرین سے ہی جانے کا فیصلہ کیا۔ ہائیپر لوپ سپر سونک ٹرین اس دور کی بہت ہی بڑی کاوش تھی۔ کیونکہ اس کی پٹری ، سوری اسکا کیپسولی راستہ پوری دنیا میں ایک سرے سے دوسری دنیا میں پھیلا ہوا تھا۔ 2032 میں تمام ممالک نے اس کو بنانے میں تعاون کیا تھا۔ اور اسکی سپیڈ اتنی تیز تھی کہ 15 گھنٹے میں پوری دنیا کا چکر کاٹ سکتا تھا۔ یہ ٹرین مختلف ممالک سے گزرتی تھی۔ اور آپ کو راستے میں ہر طرح کے قدرتی مناظر دیکھنے کو ملتے۔ صحرا ، سمندر ، پہاڑ، دریا۔ ،زیر سمندر اسکا بہت ہی لمبا روٹ تھا۔ آبی حیات ، جنگلی جانور آپ کو راستے میں جگہ جگہ نظر آتے۔ اور اسی لئے میں نے بھی ٹرین کو منتخب کیا تھا۔ تا کہ قدرت کے نظاروں کو بھی دیکھ سکوں۔
گامے ٹرمینیٹر کومیں نے اپنے اور اسکے لئے ٹکٹ بک کرنے کا کہہ دیا۔ گامے نے وہیں کھڑے کھڑے ٹرین اسٹیشن سے خود کو کنیکٹ کیا اور دو ٹکٹ کا آڈر دے دیا۔ ٹکٹ کنفرم ہونے کے فورا بعد ہی آفس کے ڈیجیٹل فیکس مشین سے دو ٹکٹ نکل آئے۔ یہ ٹکٹ بالکل ہی اوریجنل تھے۔ فوٹو کاپی نہیں تھے۔ تھری ڈی پرنٹنگ کی کامیابی کے بعد سائنسدانوں نے حقیقی چیزوں کو فیکس کی مدد سے ٹرانسفر کرنے کے کئی تجربات کئے ۔ اور وہ اس قابل ہوگئے تھے کہ پیپرز کو اوریجنل حالت میں ٹرانسفر کرنے میں ماہر ہوگئے تھے، مزید انکے تجربات ٹھوس اشیاء پر بھی ہو رہے تھے لیکن ابھی وہ ان میں کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کر پا رہے تھے۔
ایک بج گیا تھا ۔اور بھوک زوروں کی لگ رہی تھی۔ گامے نے کہا کہ کھانے کے لئے آڈر دے دوں۔ میں نے کہا نہیں آج ذرا باہر چل کر کھا آتا ہوں۔
اگلے لمحے میں آفس سے باہر تھا۔ ریسٹورنٹ 10 منٹ کے فاصلے پر تھا۔ اسلئے پیدل ہی چل پڑا۔ پاکستان نے 2035 میں کافی ترقی کرلی تھی۔ لیکن ابھی وہ امریکہ روس اور چائینہ جیسے جدید ٹیکنالوجی والے ممالک سے کم از کم دس سال پیچھے تھا۔ یہاں ابھی بھی سڑک پر گاڑیاں چلتی تھی۔ ہوائی گاڑیاں صرف امیروں کے پاس ہوتی تھی۔ ہوائی گاڑی کے لئے دو لائیسنس درکار ہوتے تھے۔ ایک روڈ لائسنس اور دوسرا فلائینگ لائیسنس، خود میں نے بھی بڑی مشکل سے فلائینگ بائیک خریدی تھی۔ جو فی الحال تھوڑا پرانا ماڈل تھا۔ میں انہی سوچوں میں گم تھا ۔ کہ سر کے اوپر زم۔۔۔ کی آواز کے ساتھ چار پانچ منچلے فلائنگ ون ٹو فائو بائیک پر ہوا میں گذر گئے۔ شاید انکے درمیان ریس لگی تھی۔ جیٹ طیاروں کی طرح وہ اپنی بائیکس اڑائے لئے جا رہے تھے اور اس پر خطرناک کرتب کر رہے تھے۔
بجلی کا مسئلہ 2030 میں ہی حل ہو گیا تھا۔ ملک میں چھوٹے پیمانے پر بجلی بنانے کے لئے کافی ایٹمی ریکٹر بن گئے تھے۔ اسکے علاوہ تھر کے ریگستان میں کئی کئی میل تک سولر انرجی کے پلانٹ لگے ہوئے تھے۔اور ہاں کالا باغ ڈیم بھی بن چکا تھا۔
ہوٹل سے کھانا کھا کر آفس میں باقی کا کام ختم کیا۔ اور چار بجے کے قریب جم چلا گیا۔ ٹیکنالوجی نے جہاں آسائیشات بنائی تھی۔ وہاں انسان کو سست اور کاہل بھی بنا دیا تھا۔
خود مسلسل بیٹھنے رہنے کی وجہ سے وزن بڑھتا جا رہا تھا۔ یہاں کے جم بھی اب ترقی کر چکے تھے۔ آپ کو ڈمبلز یا وزن اٹھانے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ صرف ایک روبوٹک سوٹ آپ کو پہننا تھا، اوراس کا پروگرام سیٹ کرنا تھا۔ اسکے بعد وہ مشین آپ کو خود کار طریقے سے تمام ایکسر سائز کرواتی تھی۔اور مسلز اور ٹرائی سپ بائی سپ تو ایک مہینے میں ہی بن جاتے تھے۔
جم میں کم ہی آتا تھا۔ ویسے تو ڈمبل وغیرہ ابھی بھی استعمال ہوتے تھے لیکن میں نے روبوٹک سوٹ کو ہی پسند کیا۔
جم روبوٹک سوٹ پہنا تو اس نے تو میرے انگ انگ کو ہلا کر رکھ دیا۔ میں جیسے اس سوٹ کے اندر قید ہو گیا تھا۔ اور روبوٹ کی مرضی کے تابع ہو گیا۔ اور اس نے زبردستی مجھ سے وہ وہ ایکسر سائز کروائی کہ میرا جوڑ جوڑ ہل گیا، سوٹ سے باہر نکلا تو ایسا لگ رہا تھا یسے جسم سے جان سی نکل گئی ہو۔سوٹ کے سسٹم پر نظر پڑی تو پتہ چلا کہ غلطی سے میں نے شروعاتی کی بجائے ایکسپرٹ لیول سیلیکٹ کیا ہوا تھا۔
خیر انرجی ڈرنک پی کر کچھ آرام آیا ۔ راستے میں ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا ۔ اور تھکا ہارا گھرپہنچا۔اس وقت رات کے کوئی دس بج چکے تھے۔ ابھی بستر پر بیٹھا ہی تھا۔ کہ اذان کی آواز سنائی دی۔ مجھے یاد پڑتا تھا کہ ہمارے محلے میں اذان آٹھ نو بجے ہوتی تھی۔ آواز کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو گھر والے روبوٹ سے اذان کی آواز آرہی تھی۔جو اس وقت سر پرٹوپی پہنے مسکین سی صورت بنا کر مسکرا رہا تھا۔ میں اسکے ارادے سجھو گیا اور بولا مولوی آج تو معاف کردو ۔ بہت تھکا ہوا ہوں۔ مولوی روبوٹ بولا، کہ نما ز کی تو معافی تو ہے نہیں۔ لیکن آپ کو یہی پر وضو کروا دیتا ہوں ۔ اس سے آپ فریش بھی ہوجائیں گے اور تھکاوٹ بھی اتر جائے گی۔میں نے بھی ہار مان لی۔ روبوٹ نے میرے بوٹ اتارے۔ میں نے بازو آگے بڑھائے اور اس نے میری آستینیں چڑھا دی۔اسکے بعد روبوٹ نے ٹرمینیٹر روبوٹ کی طرح خود کو وضو خانے کی شکل دے دی۔ اور میں نے بستر پر بیٹھے بیٹھے وضو کرلیا ۔ اور ہمت کرکے نماز پڑھ ہی لی۔
بستر پر لیٹنے کے بعد اپنی سمارٹ واچ کو اتار کراسکا منہ چھت کی طرف کرکے اس کا پروجیکٹر آن کیا اور لوس اینجلس کے بارے میں ایک ڈاکومنٹری لگا رکر دیکھتا رہا۔ اور تھوڑی دیر کے بعد نیند کی گہرائیوں میں کھو گیا ۔ پروجیکٹر بھی میری آنکھیں بند ہوتے ہی تھوڑی دیر بعد خود ہی بند ہوگیا۔
خواب میں ۔ میں تھا، سارہ تھی اور لوس اینجلس تھا۔۔اور ساتھ میں گاما اور مولوی روبوٹ۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از قلم: مراد خان