فاصلے محبتوں کے…

اسکے انکار کے بعد تو جیسے دل ہی ٹوٹ گیا تھا۔ وہ میری زندگی میری محبت تھی۔ میں نے خود سے بھی زیادہ اسے چاھا تھا۔
زندگی کا ایک ایک پل ایک ایک سانس اسکے نام کردی تھی۔ میرے دل کی دھڑکن بھی دھڑکتی تھی تو اسکا نام لیکر دھڑکتی تھی۔۔ میری محبت ، محبت نہیں تھی ، جنوں تھا۔۔ عشق تھا۔ لیکن اس نے میرے عشق کی میری محبت کی بھی پڑوا نہیں کی۔ اور بڑی آسانی سے کہہ دیا ۔ نو۔۔۔۔ اینڈ نیور۔۔۔۔
چارسال، کہنے میں تو چند لمحے ہیں لیکن صدیوں پر محیت عرصہ دل تو کر رہا تھا۔ کہ کچھ کرجاؤں ۔ لیکن کرنا بزدلی تھی۔
ہماری محبت کی داستاں ایک رونگ نمبر فون کال سے ہوئی تھی۔مہوش کی آواز اتنی پیاری تھی کہ دل کرتا تھا ہمیشہ سنتا ہی رہوں۔ میری عادت نہیں تھی کہ لڑکیوں کو دیکھ کر ہی پیچھے پڑجاؤں۔ لیکن نہ جانے کیا چیز تھی کہ اسکی آواز مجھے کھینچے چلی گیئ۔اور میں اسکی آواز کا دیوانہ ہوگیا۔ لیکن ان دو سالوں میں سرف اسکی آواز ہی سنی دیکھنے کی حسرت ہی دل میں رہی۔ یہ محبت بھی عجیب چیز ہے۔ محبت کرنے والے بھی عجیب عجیب سے خود سے قانون بنا لیتے ہیں۔ ہمارے درمیان یہ معاہدہ ہوگیا تھا۔ کہ کبھی ایک دوسرے کے سامنے نہیں آئیں گے۔وقت گذرتا رہا۔ ایک دن اسنے مجھ پر یہ کہہ کر بم گرادیا۔ کہ آج سے ہم بات نہیں کریں گے۔ میں بہت رویا چلایا، محبتیں کی قسمیں دی۔ لیکن وہ نہ مانی اور کہنے لگی کہ میری شادی کی بات پکی ہو رہی ہے۔ اور میں اپنے ہونے والے خاوند سے بے ایمانی نہیں کر سکتی ۔ وہ بھی عجیب لڑکی تھی۔ گھر والوں نے جہاں چاہا بیاہ دیا اور وہ بھی آنکھیں بند کرکے گھر والوں کی ہاں میں ہاں ملاتی گئی۔اور وہ مجھے چھوڑ گئی۔
اس وقت دل تھا کہ خون کے آنسو رو رہا تھا۔ دل کر رہا تھا کہ چیخ چیخ کر رو رو کر اس دنیا سے اس سماج سے کہو کہ آخر میرا قصور کیا تھا۔ میں غریب تھا شاید صرف اسلئے ؟۔ اورکیا غربت ہی میری مجبوری تھی۔ آج امیری مجھ پر ہنس رہی تھی۔ اور دل کا درد تھا کہ سہہ نہیں جا رہا تھا۔
اور پھر میں نے ایک فیصلہ کرلیا۔
محنت کروں گا۔ آگے بڑھوں گا۔ بڑھتا ہی جاؤں گا۔اور اپنا ایک مقام پیدا کروں گا۔ اور اس دنیا کو اس ظالم سماج کو بتا دوں گا۔ جس ظالم سماج نے میری غربت کا مذاق اڑایا تھا۔ اور امہوش کو بھی بتا دوں گا۔ کہ جس شخص کو تم نے ٹھکرایا تھا۔ جس شخص کا تم نے دل دکھایا تھا۔ آج وہ انسان آسمان کی بلندیوں پر کھڑا ہے۔اتنی بلندیوں پر کہ تم اسے تم دیکھ بھی نہ سکو گے۔
میں اپنی گریجوشن کو مکمل کرنے میں لگ گیا۔ لیکن پیپروں کے دنوں میں اسکی کال آئی ۔ کہ اسکی منگنی ہوگئی ہے۔ اور کال کاٹ دی ، میں نے نے دوبارہ کال کرنے کی کوشش کی لیکن وہ نمبر پھر دوبار زندگی بھرآن نہیں ہوا۔ اور نہ ہی پتہ چل سکا کہ کب اسکی شادی ہوئی
میں اپنی کلاس کا نالائق ترین لڑکا تھالیکن محنت کی وجہ سے اچھے نمبر لئے۔ خود اساتذہ اوو دوست بھی حیران تھے۔ کہ اتنے اچھے نمبر کیسے آگئے۔ وہ سب خوش تھے لیکن میرے دل میں درد کا طوفان تو اور بھی بڑھ گیا تھا۔ خوشی کس کی بات کی کرنی تھی میرے پاس تو غم ہی غم تھے۔۔ میرا تو سب کچھ لٹ گیا تھا۔
جاب کی تلاش میں نکلا تو پتہ چلا زندگی فلم کی کہانی نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت ہے۔ میں کوئی ہیرو نہیں تھا۔ میں تو اس حقیقی زندگی کا ایک عام انسان تھا۔ سفارش، پیسہ یہ سب نوکری کے لئے ضروری تھا۔ لیکن میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ اور پھر ایک جگہ ایک دوست نے جاب پر لگا دیا۔ نوکری ملتے ہی میں نے عزم کرلیا ۔ کہ اب خوب محنت کروں گا۔اور ایک دن اس کمپنی کا ایم ڈی بن کر دکھاؤں گا۔
جاب کو لگے ابھی ایک مہینہ ہی ہوا تھا ۔ کہ گھر والوں نے میری زبردستی شادی کروادی۔ میں نے بہت انکار کیا۔ لیکن ماں باپ کی شفقت اور محبت کے آگے ہار گیا۔ جیسے وہ ہار گئی تھی۔ ماں نے پوچھا بھی تھا۔ کہ آخر کیوں انکار کرتے ہو۔ اور اس دن میں اپنی ماں سے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا۔ اور سب بتا دیا۔ ماں بولی تھی ، بیٹا گذرا وقت کبھی واپس نہین آتا۔ لیکن اپنے حال اور مستقبل کے بارے میں بھی سوچ لو۔ ثناء بہت ہی اچھی لڑکی ہے۔ میں خود اس سے ملی ہوں۔بہت ہی وفا شعار اور ملنسار ہے۔ تمھارے گھر کو جنت بنا دے گی۔
اور پھر میں نے گھر والوں کے سامنے سر جھکا دیا تھا۔ اس دن اپنی بدنصیبی پر میں چھپ چھپ کر بہت دیر تک روتا رہا۔ماں نے جیسا کہا تھا۔ ثناء نے اس سے بھی زیادہ مجھے محبت دی ، سہارا دیا۔ اور واقعی میرے گھر کو جنت بنا دیا ۔ لیکن میرے دل میں ابھی بھی وہ درد باقی تھا۔ جو راتوں کو مجھے سونے نہیں دیتا تھا۔کبھی کبھی تو میں سوچتا تھا۔ کہ شاید میں ثنا سے بے ایمانی کر رہا ہوں۔ وہ میرا اتنا زیادہ خیال رکھتی ہے۔ اور میں مہوش کے خیالوں میں کھویا رہتا ہوں۔وقت ، لمحے اور سال بیتتے گئے۔ بچے ہوگئے۔ انکی شادیاں بھی کروادی۔ میں نے اپنی منزل کو بھی پا لیا۔ آج میرا اپناامپورٹ اور ایکسپورٹ کا بزنس تھا۔ مہوش کو کافی ڈھونڈا۔ لیکن وہ نہیں مل سکی۔ اپنے اختیارات استعمال کرکے نمبر پربھی ٹریس کروایا۔ لیکن اس دوران وہ سم کئی بار مختلف این آئی سی پر استعمال ہو چکا تھا۔ سب سے پہلی این آئی سی ایک 70 سالہ بوڑھے آدمی کے نام تھی۔ میں ایڈریس پر بھی پہنچا۔ لیکن وہاں بھی کوئی سراغ ہاتھ نہین آیا۔
آج میں ساٹھ سال کا ہوگیا تھا۔ لیکن ماضی کی یادیں ابھی میرے دل میں تھی۔ ایک کسک ابھی دل میں تھی۔ کہ کاش ایک بار ، ایک بار ۔۔ ہی اسے دیکھ لیتا۔ آج میں جس مقام پر تھا۔ اسی کی ہی وجہ سے تھا۔ لیکن وہ نہ جانے کہاں اندھیروں میں کھو گئی تھی۔ کبھی کبھی میں اخبارات اور ٹی وہ میں آجاتا تھا۔ اور سوچتا تھا ۔ کہ شاید وہ مجھے پہچان لے۔ اور ایک بار مل لے۔لیکن وہ مجھے کیسے پہچانتی ۔؟؟ کیونکہ ۔ میں نے بھی اسکو اپنا اصل نام فاروق نہیں بتایا تھا۔وہ یہ جانتی تھی ۔اور میں بھی جانتا تھا ۔ کہ مہوش بھی اسکا اصل نام نہیں تھا۔اور پرنس میرا اصل نام نہیں تھا۔میں نے کہا تھا ، میں شہزادہ ہوں آپ مجھے پرنس کہہ سکتی ہیں۔ اور وہ بولی تھی میں پری مہوش ہوں ، آپ مجھے صرف مہوش کہہ سکتے ہیں۔ ہمارے درمیان یہی وعدہ ہوا تھا۔ کہ ہم نہ تو اپنا نام ، شناخت ایک دوسرے کو بتائیں گے او ر نہ ہی ایک دوسرے کو اپنی شکل دکھائیں گے۔ ہم صرف دوست بن کر رہیں گے۔ لیکن نہ جانے کب وہ دوستی محبت اور پھر عشق میں بدل گئی۔
ثنا میری بیوی ان چالیس سالوں کے اندر جان گئی تھی۔ کہ کچھ ہے جوصدیوں سے میرے دل میں موجود ہے۔ لیکن اس نے عام عورتیں کی طرح مجھے کریدا نہیں۔ لیکن پھر بھی وہ میری دل جوئی کرتی رہی۔ وقت کے ساتھ ساتھ ثنا نے میرا دل جیت لیا تھا۔ اور میں کوشش کرتا کہ اسکو بھی حد سے زیاہ محبت دوں۔کبھی کبھی اکثر وہ بھی میری طرح خیالوں میں کھو جاتی ۔ لیکن ایسا بہت کم دیکھا تھا۔ شاید گھر کی یاد عورت کو زندگی کے ہر موڑ پر آتی ہے۔
آج ہماری شادی کی اکتالیسویں سالگر ہ تھی۔ میں سبح کے وقت ٹیرس پر بیٹھا بظاہر اخبارات کی ورک گردانی میں مصروف تھا۔ لیکن خیالات کی رو بار بار ماضی کی سوچوں کی طرف بہہ جاتی۔پتہ بھی نہ چلا کہ کب ثناء سامنے والے صوفے پر بیٹھ کر پیار سے اور مسکراہٹ سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔
سنیئے ۔ ایک بات کہوں۔۔۔۔
جی۔۔۔ میں خیالوں کی دنیا سے نکل کر ثناء کی طرف متوجہ ہوگیا۔ مشرق کی طرف سے امڈتی ہوئی سورج کی روشنی اسکے سفید ہوئے بالوں کو اور بھی چمکا رہی تھی۔
شادی کے اکتالیس سال گذر گئے ہیں۔میں سوچتی تھی۔ کہ کسی نہ کسی دن آپ مجھے بتا دیں گے۔ کہ آپ کے ساتھ کیا ہواتھا۔ جس کی کسک اور درد آج بھی آپ دل میں دبا کر بیٹھے ہیں۔ آپ یہ مت سمجھئے ۔ کہ میں آپ کسی قسم کا شک کر رہی ہوں۔ اور اس عمر میں تو شک والی بات ہی پاگل پن ہے۔ لیکن میں اسلئے کہی رہی ہوں ۔ کہ کم سے کم آپکے دل کا بوجھ ہی کم ہوجائے۔،یہ شاید میں اسکا کوئی حل نکال سکوں۔
میں ہلکے سے مسکراہٹ اٹھا۔ ایک گہری سانس لی۔ اور کہنے لگا۔ ایک لڑکی تھی مہوش نام تھا۔فون پر دوستی اور پھر محبت ہوگئی۔ اور پھر یہ محبت عشق کے جذبوں میں بدل گئی۔ چار سال تک ہماری محبت کی داستاں رہی اور ایک دن وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔ اسکی شادی کسی اور سے ہونے والی تھی۔ بس آج تک اسکی یاد دل سے نہیں جا رہی۔
یہ کہہ کر میں نے سر جھکالیا۔ ثناء اپنی جگہ سے اٹھی۔ اور میرے پاس آکر بیٹھ گئی۔ اور میرا ہاتھ پکڑ کر ہولے سے اسے سہلانے لگی۔اور بولی
مہوش کی شادی نہیں ہوسکی تھی۔ منگنی ہوئی تھی۔ لیکن وہ ٹوٹ گئی تھی۔ لیکن وہ اسلئے رابطہ کرنے سےڈرتی تھی۔ کہ شادی تو دوبارہ بھی ہوجائے گی۔ لیکن دونوں دلوں میں جو آگ لگی تھی وہ شاید اور بھی بھڑک اٹھتی، اور ملنا پھر بھی انکے نصیب میں نہیں تھا۔ اور مہوش کی شادی اچانک ہی دوسری جگہ کردی گئی، اسکے خاوند بہت اچھے ہیں۔ اور بہت اچھی طرح انکا خیال رکھتے ہیں۔
ثناء کی باتیں سن کر مجھ پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے۔ میں ابھی بھی سر جات یا حیرت سے گنگ بیٹھا تھا۔ تبھی دو موٹے موٹے آنسو گرم گرم آنسو میرے ہاتھ پر گرے۔ میں نے چونک کر ثنا ء کی طرف دیکھا۔ اسکا چہرہ آنسو سے تر تھا۔ میرے پرنس میرے شہزادے اگر یہی بات مجھے پہلے بتا دیتے۔ تو سالوں سے تم جس مہوش کو ڈھونڈ رہے تھے وہ تمھاری سامنے موجود تھی۔تمھاری اپنی ثناؑ تمھاری اپنی مہوش تمھارے سامنے تھی۔۔۔
مجھ پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے۔ اپنی چالیس سالہ زندگی جس خواب میں گذار دی تھی۔ وہ خواب میرے سامنے تھا۔ لیکن میں پھر بھی انجان تھا۔ کاش میں دل کی باتیں دل میں ہی رکھنے کی بجائے ااپنی بیوی کو ہی بتا دیتا ۔تو آج میری زندگی ایسی اور ایسے درد میں نہ گذرتی۔
ثناء کی ڈبڈائی آنکھیں میرے سامنے تھی۔ جس میں شکوہ تھا، شکایت تھی۔ اپنائیت تھی اور محبت بھی تھی۔ اور مجھے اسکی آنکھوں میں وہ خاص چمک بھی نظر آئی۔ مجھے اب سمجھ آرہا تھا۔ کہ اسکا کبھی کبھی خیالوں میں کھو جانا بھی میرے ہی لئے تھا۔ محبت کی آگ اگر میرے اندر جلتی تھی ۔ تو حرارت اسے بھی محسوس ہوتی تھی۔ لیکن اس نے اپنا پیار اپنی محبت کو قربان کرکے صرف اپنے خاوند کو اپنا سب کچھ سمجھا اور اسکی خوشی کے لئے دن رات اسکی خدمت میں لگ گئی۔
اور ایک میں تھا۔ کہ خیالوں کی بے وفائی کا مرتکب ہوتا رہتا تھا۔ دل و دماغ میں عجیب سے کشمکش چل رہی تھی ، کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔
اچانک ثنا ء نے ہنسنا شروع کردیا اور اس پر ہنسی کا دورہ پڑ گیا۔ میں جو گومگو کی کیفیت میں تھا۔ پہلے تو حیران ہوگیا۔ اور پھر مجھے بھی ہنسی کا دورہ پڑ گیا۔ مجھے اپنے سامنے اب وہی مہوش نظر آرہی تھی۔ہنستی ، کھلکھلاتی، مسکراتی ، مہوش میری پری میری دل کی رانی۔ قسمت کے اس مذاق پر اب ہنسی ہی آرہی تھی۔اور مجھے اب سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ہنسوں یا روؤں۔
ثناء نے پیٹھ دوسری طرف کرلی ۔اور ہاتھ کو کان پر رک کر بولی۔ ہیلو مائی ڈئیر پرنس میرے خوابوں کے شہزادے کیسے ہو۔ میں بھی اسکے سٹائل کو سمجھ گیا۔ اور میں نے بھی اسکی پیٹھ سے اپنی کمر لگا لی۔ اور بولا
بس کیا کہوں میری پرستان کی پری میرے دل کی رانی ۔، اس شہزادے کو تم نے ساتھ ہو کر بہت دوڑایا ہے۔ اب بہت تھک ہوگیا ہوں۔ مجھے اب اپنی بانہوں میں بھر لو، آج جی بھر کر تمھیں دیکھنے کو جی چایتا ہے۔
ثناء بولی ۔ چی چی ،۔ چی بڈھے ہو کر ایسی باتیں کرتے ہو۔ ایک بار پھر ہنسی کا فوارہ پھوٹ اٹھا۔ اور میں نے اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا۔ زندگی میں پہلی بار سکون کا ایسا احساس ہوا ، جیسا لگ رہا تھا کہ میں اسی سکون کو عمر بھر ترستا رہاتھا۔۔
از قلم: مراد خان

اپنا تبصرہ بھیجیں