ہندو مت کی دست درازیاں اور بھنڈر مت کی فنکاریاں

از قلم: لالہ صحرائی
عمران شاہد بھنڈر صاحب کو آج تک اتنی بھی سمجھ نہیں آئی کہ عِلمی فورم پہ فِلمی قسم کی یبلیاں نہیں مارنی چاہئیں۔
ان کو چانکیہ ازم اور اس کی چیرہ دستیوں کا یا تو سرے سے علم نہیں یا پھر جان بوجھ کے اتنے واضح تاریخی حقائق کو جھٹلا رہے ہیں تاکہ بین السطور اسلام کی ڈیفیمیشن اور ہندومت کی سربلندی کا ایجنڈا آگے بڑھائیں۔
یہ جو کچھ انہوں نے کہا ہے حقیقت بالکل اس کے الٹ ہے، ہندووں کا گرونانک صاحب اور ان کے دس گروؤں پر نہ صرف پورا کلیم ہے کہ وہ ہندو لارڈز کے ڈیسینڈینٹس ہیں بلکہ اس پر لکھا ہوا لٹریچر بھی موجود ہے اور ان کا ظالمانہ عملی کردار بھی ریکارڈ پر ہے جو اسی بنیاد پر سکھوں کو اپنے زیرنگیں لانے کیلئے اختیار کیا گیا تھا۔
گرونانک صاحب نے جب اپنے فرزند سری چند صاحب کی بجائے اپنے دیرینہ ساتھی بھائی لہنا جی کو اپنا گدی نشیں مقرر کر دیا تو سری چند صاحب اپنے دادا کے مذہب پر لوٹ گئے تھے اور رد عمل کے طور پر بھائی لہنا جی پر کرتار پور میں رہنا مشکل بنا دیا تھا یہاں تک کہ انہیں ہجرت کرکے کھڈور صاحب یا ترن تارن جانا پڑا۔
دوسرے اور تیسرے گرو صاحب کیلئے بھی مشکلات گھڑی گئی تھیں مگر کوئی سانحہ نہیں ہوا سوائے جبری ہجرتوں کے۔
سانحات کا آغاز چوتھے گرو، گرو رامداس جی، سے شروع ہوتا ہے جب انہوں نے سکھوں کی مرکزی عبادت گاہ قائم کرنے کیلئے امرتسر کے اس مقدس تالاب کے گرد ڈیمارکیشن کی تھی جہاں گرونانک صاحب نے قیام کیا تھا، اب وہاں دربار صاحب واقع ہے۔
انہیں ایک مذہبی قوت بننے سے باز رکھنے کیلئے دھونس دھمکی اور دباؤ سے آگے بڑھ کے مغلوں کی ہندو کابینہ کی طرف سے جب دست درازی کی کوشش کی گئی تو لاہور کی نہایت بااثر صوفی شخصیت میاں میر صاحب نے دخل اندازی کرکے مغل دربار کو سخت شٹ اپ کال دی تھی۔
گرونانک جی سے گرو گووند جی تک کن کن بااثر مسلمانوں نے سکھ ازم کو دامے درمے سخنے تقویت دی تھی یہ نہایت دلچسپ بیان ہے اور سکھ مسلم دوستی کو مضبوط کرتا ہے اسلئے کبھی الگ مضمون میں بیان کروں گا۔
پھر پہلا خونی سانحہ ان کے بیٹے گرو ارجن دیو جی کیساتھ ہوا جب انہوں نے سکھوں کی مقدس کتاب کا پہلا ورژن آدھ گرنتھ صاحب مرتب کیا اور پھر میاں میر صاحب سے دربار صاحب امرتسر کا سنگ بنیاد بھی رکھوا دیا، ان اقدامات سے سکھ ازم باقائدہ مذہبی قوت کی شکل اختیار کرنے لگا تھا اسلئے بااثر ہندو طبقہ اسے ختم کرنے پر تلا ہوا تھا لیکن میاں میر صاحب کے مغلوں پر اثر و رسوخ کی وجہ سے ان کا بس نہیں چلتا تھا۔
عین اسی دور میں اکبر کے دین اکبری کی رعایت لیکر مغل کابینہ کے ہندو وزیر داخلہ نے رام رحیم اِکو ہے کی تحریک بھی چلا رکھی تھی جس کا مطلب مسلمانوں کو بھی اپنے طفیلئے بنانا ہی تھا لیکن میاں میر صاحب نے ان واشگاف الفاظ میں اس تحریک کو رد کیا کہ رام جی راجہ دسرتھ کے بیٹے تھے اور رحیم کی ذات پاک خالق کائنات ہے، جس کا نہ کوئی پیدا کرنیوالا ہے نہ اس کی کوئی اولاد ہے، لم یلد و لم یولد، اور کوئی اس کا ہمسر بھی نہیں، اسلئے رام اور رحیم ایک ذات نہیں ہیں۔
سکھوں کی جماعت جب میاں صاحب کو دربار صاحب کا سنگ بنیاد رکھوانے کیلئے امرتسر لیجا رہی تھی تو اسی وزیر نے اس جماعت پر بھی جان لیوا حملہ کرایا تھا جس میں سکھوں نے بھرپور مقابلہ کیا اور شدید زخمی ہوئے مگر سرکاری فوج کو بھگا کے دم لیا۔
میاں صاحب کی رحلت کے بعد ان کی اولاد پر بھی لاہور میں زندگی تنگ کر دی گئی تو گرو ارجن دیو جی نے حقِ دوستی کی خاطر ان سب کو بھی امرتسر بلوا لیا اور وہاں گزر بسر کیلئے انہیں زمینیں بھی دلوا دیں، وہ خاندان آج بھی وہاں رہتے ہیں، شائد انہیں میری پیری کا حلقہ کہا جاتا ہے۔
میاں صاحب کے بعد ہندو کابینہ کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں تھا اور گرو ارجن دیو جی پر دربار صاحب کی تعمیر رکوانے اور لاہور کے صوفی خاندانوں کو واپس کرنے کیلئے شدید دباؤ تھا بلآخر وہ انہیں گرفتار کرکے شاہی قلعہ لاہور لے آئے اور تشدد کیلئے انہیں گرم توی پر لٹایا اور بٹھایا گیا۔
اتنے تشدد کے بعد بھی جب وہ ایک قدم پیچھے نہ ہٹے تو انہیں چھوڑ دیا گیا مگر اس حالت میں کہ ان کا جانبر ہونا ناممکن دکھائی دیتا تھا، اسی حالت میں وہ شاہی قلعے کے داخلی دروازے پر جا کے تھوڑی دیر یا ایک دن بیٹھے رہے، پھر ان کا کچھ پتا نہیں چلا کہاں گئے۔
شاہی قلعے کی اینٹرینس پر جو گردوارہ ہے اسے ڈیرہ صاحب کہتے ہیں یہ انہی گرو جی کی یاد میں بنایا گیا تھا جہاں وہ وحشیانہ تشدد بھگتنے کے بعد تھوڑی دیر کیلئے آرام فرما رہے تھے۔
یہ سب رلا دینے والی داستانیں ہیں جو دسویں گرو صاحب تک ایسے ہی چلی ہیں، میں مختصر کرکے لکھ رہا ہوں تاکہ طوالت نہ ہو۔
ان حالات میں چھٹے گرو صاحب نے گدی سنبھالتے ہیں سکھوں کو سیلف ڈیفینس کیلئے مسلح ہونے کا حکم دیا تھا، سکھوں کے گلے میں جو کرپان لٹکتی ہے اور جو تلوار رکھتے ہیں یہ انہی گرو صاحب کی دین ہے اسلئے انہیں گرو تیغ بہادر صاحب کہتے ہیں، بلآخر انہیں بھی سکھوں کو مسلح قوت بنانے کی پاداش میں نہ صرف ان کے چھ سال کے بیٹے اور بیوی کے سامنے شہید کیا گیا بلکہ ان کا کلیجہ نکال کے گرو گووند جی کے منہ کو بھی لگایا گیا جو اس وقت بچے تھے اور بعد میں دسویں گرو ہوئے۔
ساتویں، آٹھویں اور نویں گروؤں کی داستانیں بھی کچھ مختلف نہیں لیکن جو ظلم دسویں گرو صاحب کے گھرانے پر ہوا وہ ان سب سے سوا تھا۔
ماتا گُجری جی جنہوں نے اپنے شوہر شری تیغ بہادر جی کی شہادت اپنے سامنے ہوتے دیکھی تھی، پانچویں سے نویں گروؤں تک ہوا ظلم انہیں پتا تھا انہوں نے شری گووند جی کی تربیت بہت دھیرج سے کی تھی تاکہ وہ گدی نشین ہوکے اپنی قوم کو اس دلدل سے نکالیں۔
سکھوں کے دسویں اور آخری گرو، گرو گووند جی، انتہائی کمال کے ویژنری لیڈر تھے، انہوں نے ساڑھے تین سو سال قبل اورنگزیب حکومت سے مزاکرات کئے کہ ہندوستان میں جب کنفیڈریشن کا ماحول قابل قبول ہے تو ہمیں بھی دیگر راجوں کی طرح مرکزی حکومت سے الحاق شدہ ایک نجی ریاست اور نجی فوج رکھنے کا اختیار دیں جیسے باقیوں کو دیا ہوا ہے تو نہ آپ کو سکھ قوت سے کوئی خطرہ ہوگا نہ ہمیں آپ سے کوئی جھگڑا باقی رہے گا۔
پھر انہوں نے آنند پور میں ایک قلعہ تعمیر کرایا جہاں سکھوں کی پہلی ریاست قائم کی، ان کا مورال بڑھانے کیلئے ایک مخصوص طرز کی پگڑی پہنی اور اس پر کراؤن لگایا تاکہ وہ دوسرے راجاؤں کو دیکھ کے احساس کمتری نہ محسوس کریں، سکھوں کی پگڑی اسی پگڑی کا عکس ہے۔
سکھوں کو سنگھ کا خطاب دیا اور حفاظت کیلئے باقائدہ خالصہ فوج بنائی، نیلے کپڑے پہننے والے جو سکھ ہیں وہ اصل میں اسی خالصہ فوج کا عکس ہیں، نچلی ذاتوں کو قابل قدر بنانے کیلئے پانچ پیاروں کا کنسیپٹ دیا، مرکزی مجلس عاملہ قائم کی جسے خالصہ پنتھ کہتے ہیں اور اپنی مقدس کتاب گرنتھ صاحب کا آخری ورژن مرتب کیا جس میں تمام ضروری احکامات کا احاطہ کرکے اس کتاب کو گرو کا درجہ دے دیا اور حکم دیا کہ اب کوئی گرو نہیں بنے گا تاکہ یہ قتل و غارت کا سلسلہ ختم ہو۔
اس وقت سے ان کی مقدس کتاب ہی زندہ گرو کا درجہ رکھتی ہے اسیلئے اسے گرو گرنتھ صاحب کہتے ہیں اور زندہ پیر کی طرح ہی ٹریٹ کرتے ہیں۔
سب ٹھیک چل رہا تھا لیکن مسئلہ اسوقت کھڑا ہوا جب تیسرے سال سالانہ اجتماع کے موقع پر آنند پور قلعہ میں تین لاکھ سنگھ جمع ہوئے، کنفیڈریشن میں یہ خطرہ تو رہتا ہے کہ ایک طاقتور راجہ کسی چھوٹے راجہ کو کھا جائے، اسلئے ایک مسلمان گورنر وزیر خان اور ایک ہندو گورنر شائد دولت رام نام تھا اس نے حکومت کو ڈرانے کے بعد اجازت نامہ حاصل کیا کہ اس قوت کو ختم کرنا بہت ضروری ہے۔
ان دونوں راجوں نے قلعے کا محاصرہ کیا لیکن جیت نہ سکے، دسمبر کا مہینہ آگیا، اندر راشن کی کمی تھی اور باہر موسم کی سختی لہذا باہر والوں نے مذاکرات کا ڈول ڈالا کہ آپ لوگ قلعہ خالی کرکے بکھر جائیں تو ہم آپ کو سیف ایگزٹ دینے کو تیار ہیں۔
وزیر خان نے قرآن پر قسم کھائی اور ہندو راجے نے گیتا پر قسم کھائی تھی مگر جیسے ہی قوم قلعہ خالی کر رہی تھی ان دونوں نے بدعہدی کی اور حملہ کر دیا۔
آپ اس شخصیت کا تصور کریں جس نے چھ سال کہ عمر میں اپنے والد کو شہید ہوتے دیکھا، ان کا کلیجہ ان کے منہ میں ڈالا گیا، ماتا گجری جی کا تصور کریں جس نے ایک ویژنری لیڈر دیا اور اس بیٹے کے دونوں بچوں کیساتھ ہندو راجہ کے ہاتھوں گرفتار ہوئیں اور پھر پتا چلا کہ انہیں اذیتیں بھی دی گئیں اور پھر تینوں کو دیوار میں چنوا دیا گیا۔
اس باپ کا تصور کریں جس نے ماں کیساتھ اپنے دو جوان بیٹے بھی کھو دیئے اور خود کسی دور دراز جگہ پر مخبری ہونے کے بعد فوج کے ہاتھوں دوبارہ محصور ہوا بیٹھا تھا، گھروں کی تلاشی جاری تھی کہ وہاں کے دو مسلمان بھائیوں کو اس مظلوم کے حق میں غیرت آتی ہے اور غنی خان و نبی خان پٹھان اپنے ساتھیوں کیساتھ انہیں اوچ شریف کا پیر بنا کے سخت بحث کے بعد فوجی نرغے سے نکال کے کسی اور محفوظ جگہ پر چھوڑ کے آتے ہیں۔
سکھوں نے اپنے گرو کے محسن دونوں بھائیوں کے نام پر گردوارے کھول رکھے ہیں جہاں دو سو سال سے اربوں روپے کا لنگر ان کے ثواب کیلئے بانٹا جاتا ہے۔
پھر مرکزی حکومت بدلتی ہے، نئے مغل بادشاہ کے خلاف بغاوتیں کچلی جاتی ہیں اور جب ریکنسیلیشن شروع ہوتی ہے تو گرو جی کو بھی نئی حکومت کا حصہ بننے کی دعوت دی جاتی ہے، مزاکرات کامیاب ہوگئے تھے مگر وزیر خان کے بندوں نے بادشاہ کا پیغام پہنچانے کے بہانے خیمہ میں جا کے زہر آلود خنجر گھونپ دیئے اور وہ شہید ہوگئے۔
یہ ساری داستان آپ کو گرو گووند جی کے فارسی کلام ظفر نامہ میں مل جائے گی، یہ ایسا حیرت انگیز ادبی کلام ہے کہ بندہ ان کے زبان و بیان کی قدرت پر ششدر رہ جاتا ہے۔
قصہ ابھی ختم نہیں ہوا، گرو صاحب کی بیوی کا پوچھیں کہاں ہیں، سکھ قوم نڈھال اور بکھری ہوئی ہے، دربار صاحب امرتسر پر قبضہ ہے تاکہ قوت بحال نہ ہو اور گرو صاحب کی زوجہ محترمہ دہلی میں یرغمال ہیں۔
اس کے بعد بندہ سنگھ بہادر چپکے چپکے تیاری کرتا ہے اور پھر آندھی طوفان کی طرح پورا صوبہ سرہند فتح کر لیتا ہے، تمام کرداروں کو انجام تک پہنچاتا ہے، دربار صاحب آزاد کراتا ہے اور زوجہ محترمہ کو رہائی دلواتا ہے، پھر کسی معرکے میں گرفتار ہوجاتا ہے، آگے مت پوچھیں اسے کس طریقے سے شہید کیا جاتا ہے۔
نیوزی لینڈ میں سکھوں کا ایک باغی پرچارک ہے اس کے بقول ہندو قیادت اس قدر طاقتور اور شاطر تھی کہ ہر مذہب کی زیر تعمیر عبادت گاہوں کی بنیادوں میں راتوں کو مورتیاں دبا آتی تھی تاکہ کبھی ان کو تتر بتر کرنا پڑے تو کسی اوتار کا جنم استھان ڈیکلئیر کر دیا جائے۔
رنجیت سنگھ کے بعد جب پنجاب پر انگریزوں کا قبضہ ہوگیا تو 1850 میں اس سلسلے کا پہلا کھیل دربار صاحب امرتسر کیساتھ کھیلا گیا کہ یہ تو فلاں ہندو اوتار کا جنم استھان ہے، پھر اس کی بنیادوں سے مورتیاں نکال کے بھی دکھا دیں اور اسے ہری۔مندر قرار دیکر قبضہ لے لیا، اسی وجہ سے اب بھی کہیں نہ کہیں اس دربار کو ہرمندر صاحب بھی کہا جاتا ہے جیسا کہ آپریشن 84 میں کہا جاتا رہا ہے، بابری مسجد کیساتھ بھی یہی کیا گیا تھا، آگے اور بھی نکلیں گی کیونکہ دبائی ہوئی مورتیاں ہر جگہ ہیں۔
اس کے بعد ننکانہ صاحب، فاروق آباد اور دیگر تمام بڑے گردواروں کا انتظام بھی ہندووں کے ہاتھ میں دے دیا گیا۔
سال 1920 میں سردار سندر سنگھ لیلپوریا نے جو یہاں اسکول میں ہیڈ ماسٹر تھے انہوں نے ایک دھرنا شروع کیا جیسے مورچہ چابیاں کہتے ہیں، ان کا مطالبہ تھا کہ تمام درباروں کی چابیاں ہندو پنڈتوں اور مہنتوں سے لیکر سکھوں کو واپس کی جائیں، مگر شنوائی نہیں ہو رہی تھی تو سکھ نوجوانوں نے ان تمام جگہوں پر حملے کر دیئے۔
ننکانہ صاحب اور فاروق آباد میں دو پرانے درخت تاریخی ورثہ کہلاتے ہیں جن کیساتھ ہزاروں سکھوں کو ہندووں نے پھانسیاں دی تھیں، جب حالات سنگین ہوگئے تو انگریزوں نے مہنتوں سے چابیاں لیکر 1922 میں دھرنے والوں کے حوالے کر دیں، ماسٹر تارا سنگھ بھی یہیں سے مشہور ہوئے تھے۔
اس قبضے کے دوران سکھ یاتریوں کیساتھ وہاں کیا سلوک ہوتا تھا وہ ایک الگ داستانِ ظلم و ستم ہے اور جو اس یدھ میں ستم ہوا وہ الگ قصہ ہے۔
مودی کے دور میں جن درجن بھر گردواروں کو بلڈوز کیا گیا وہ الگ کہانی ہے، باتیں اور بھی بہت ہیں مگر میں نے صرف ان کی پوسٹ کے مطابق جواب دیا ہے۔
ان ساری باتوں کو ایک طرف رکھ کے، ہے کوئی اللہ کا بندہ جو صرف سکھ درباروں پر ہندووں کے بہتر سالہ قبضے کو ہی جسٹیفائی کر دے؟
رہ گئی فلموں میں ہندوازم پر تنقید برداشت کرنا اور توہین محسوس نہ کرنے والی بات تو اس کا ماجرا مشہور پاکستانی ملحد حارث سلطان سے پوچھ لینا جس نے پچھلے سال کالی ماتا پر تنقید کر کے اپنے جیسے ملحد ہندووں سے کیسے منجی ٹھکوائی تھی۔
ایڈے تسی اعلیٰ ظرف تے ملائم داس ملائم پوریئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں