پنڈی کے مشاہدات – از قلم سکندر حیات بابا

صبح سے پنڈی میں گھوم رہا ہوں تو مشاہدہ پیش خدمت ہے

جو لوگ کہیں کہ نہیں رہتے، وہ پنڈی میں رہتے ہیں۔

جو لوگ پنڈی میں پیدا ہو کر ستر سال گزار کر پنڈی میں ہی رہائش پذیر ہیں، وہ بھی نہیں بتا سکتے کہ پنڈی کی حدود کیا ہیں۔ لوگوں کے گھروں کے دو دروازے ہوں تو ایک پنڈی میں کھلتا ہے اور دوسرا اسلام آباد میں۔

پنڈی میں سیدوں کی تعداد سعودی عرب کی کل آبادی سے زیادہ ہے، اور ان کے پاس ایف ایکس اور مہران کاریں اس سے بھی زیادہ ہیں جتنی سوزوکی کمپنی نے بنائی تھیں۔ شنید ہے باقی کی کاریں انہوں نے گھر پر بنانا شروع کردی تھیں۔

پنڈی کے لوگ کاروبار میں سب سے زیادہ ایماندار ہیں۔ یہاں کے دکاندار پروفیشنل بزنس مین ہیں، وہ کاروبار کی باریکیوں کو سمجھتے ہیں، تنگ دل نہیں ہیں، اور سونے کے انڈے دینے والی مرغی کو ذبح کرنے کے قائل بھی نہیں۔

جو لڑکی محبت میں بے وفا ہو اور پنڈی کی ہو، وہ جھوٹی ہے، پنڈی کی نہیں ہے۔ جو لڑکا محبت میں تمیز سے رہے، وہ بھی جھوٹا ہے، پنڈی کا نہیں ہے۔

پنڈی میں لاہور کے چنے پائے ملتے ہیں، کراچی کی حلیم اور بریانی ملتی ہے، چارسدہ کی کھچڑی، ملتان کا حلوہ، شکارپور کا اچار، اور چکوال کی ریوڑھیاں سب چیزیں مل جاتی ہیں۔ پنڈی کا کچھ نہیں ملتا۔ پنڈی میں صرف پنڈی کے کچھ ہی لوگ ملتے ہیں، جو پریشان ہی ملتے ہیں۔ ان بے چاروں کا تو موسم بھی اپنا نہیں۔ مری میں برف پڑے یا مانسہرہ میں بارش ہو، ان کی جیکٹیں صندوقوں سے نکل آتی ہیں۔

پورے ملک میں جو لڑکے سکولوں سے بھاگ جاتے ہیں، وہ پنڈی کے راجہ بازار میں ٹھیلہ لگاتے ہیں۔ اس بازار کو باقاعدہ اسی مقصد سے بنایا گیا ہے۔ ایک شخص نے دعویٰ کیا کہ وہ آدھے دن میں راجہ بازار پیدل ایک سرے سے دوسرے سرے تک نکل گیا۔ تو ورلڈ گنیز بک والوں نے اس کا نام عالمی ریکارڈ میں لکھ دیا، کہ یہ شخص مستند جھوٹا ہے۔

پنڈی میں سب سے بہترین بزنس ہسپتال بنانا ہے۔ یہاں لوگ صحت مند ہوں تو پریشان ہو کر اپنا ٹیسٹ کرواتے ہیں کہ دوستوں و رشتہ داروں کو کیا منہ دکھائیں گے۔

جس شخص کو باپ کی دعا اور ساس کی بد دعا اکٹھی لگ جائیں، وہ کسی اور شہر سے پنڈی ہجرت کر جاتا ہے۔ باپ کی دعاؤں سے امیر ہو جاتا ہے اور ساس کی بد دعا سے امیر ہو کر بھی پریشان ہی رہتا ہے۔

سکندر حیات بابا

اپنا تبصرہ بھیجیں