آخری چٹان نسیم حجازی کے ناول سے اقتباس

مہذب دنیا کے لئے چنگیز خان کی افواج کا طریق جنگ بلکل نیا تھا۔دنیا ان کے لئے ایک وسیع شکارگاہ تھی۔خانہ بدوش تاتاریوں کے پاس گھوڑوں کی کمی نا تھی۔بھیڑ بکریوں کے علاوہ وہ گھوڑوں کے گوشت اور دودھ پر گزارہ کرتے تھے۔اس کے علاوہ وہ جنگل کے ہر جانور کا گوشت کھا جاتے تھے۔صحرائے گوبی میں شہروں اور بستیوں کا نام نا تھا۔اگر کہیں بارش ہوجاتی تو یہ خانہ بدوش وہاں جا نکلتے اور جب تک ان کے مویشی گھاس کا آخری تنکا تک نا چر لیتے،وہ وہیں رہتے اور پھر جب کوئی مسافر پیغام دیتا کہ فلاں مقام پر بارش کے چند چھینٹے پڑے ہیں تو وہ ادھر کا رخ کر لیتے۔بعض اوقات نئی چراہگاہوں کی تلاش میں ایک قبیلے کی دوسرے قبیلے سے مڈبھیڑ ہوجاتی اور طاقت ور اپنے کمزور حریف کے مویشیوں پر قابض ہونے کے علاوہ اس کے زن و مرد کو بھی غلام بنا لیتا۔اس لئے کمزور قبائل اپنی حفاظت کے لئے متحد ہو کر کسی طاقت ور آدمی کو اپنا امیر بنا لیتے تھے۔سردیوں میں شمال کی سرد ہواؤں سے یہ تمام علاقہ کرہ زمہریر بن جاتا۔ریت کے تودوں پر برف کی چادر بچھ جاتی۔چارہ نہ ہونے کی وجہ سے مویشیوں کا دودھ سوکھ جاتا اور وہ سردیوں کے بچائے ہوئے خشک گوشت پر گزارہ کرتے۔کبھی کبھی تیز آندھیاں ان کے خیمے اڑا کر لے جاتیں اور ان کے مویشی ادھر ادھر کر دیتیں۔
فطرت کے ساتھ ایک دائمی جنگ نے ان لوگوں کو حد درجہ جفاکش بنا دیا تھا۔وہ کئی کئی دن تک گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ سکتے تھے اور کئی کئی دن تک بھوکے رہ کر لڑ سکتے تھے۔
چنگیز خان نے بڑے بڑے سرداروں کی سرکوبی کرنے کے بعد انھیں اپنا مطیع بنا لیا۔پھر خانہ بدوش تاتاریوں کے سامنے ان ممالک کے نقشے پیش کیے جہاں لہلہاتے باغات،سرسبز کھیتیاں اور سدا بہار چراہگاہیں تھیں۔لوٹ مار کی ہوس نے تمام خانہ بدوشوں کو چنگیز خان کے جھنڈے تلے جمع کر دیا۔تاتاری ہمسایہ ممالک پر بھوکے عقابوں کی طرح جھپٹے اور وہ اقوام جنہیں پرامن زندگی نے تن آسان بنا دیا تھا،ان کے حملوں کی تاب نہ لا سکیں۔چند برس میں چنگیز خان کی افواج شمال اور مشرق کے کئی ممالک پر قبضہ کر چکیں تھیں۔ہمسایہ سلطنتیں ان کی فتوحات کی رفتار پر حیران تھیں۔وہ ایک ایک دن میں کئی کئی منازل طے کرتے اور بیک وقت کئی مقامات سے دوسرے ممالک پر یلغار کر دیتے۔ان ممالک کی افواج حملہ آوروں کو روکنے کے لئے کسی ایک سرحد پر جمع ہوتیں،چنگیز خان کی فوج کا ایک حصہ ان کا مقابلہ کرتا اور باقی افواج
مخالف سمتوں سے ملک میں داخل ہو کر شہروں اور بستیوں پر قبضہ کر کے سلطنت کا تمام نظام مفلوج کر دیتیں۔بعض اوقات یوں بھی ہوتا کہ کسی ملک کا سپہ سالار تاتاریوں کی پیش قدمی سے باخبر ہو کر انکا راستہ روکنے کیلئے سرحد پر پڑاو ڈال دیتا۔ہر روز اس کے جاسوس اسے یہی خبر دیتے کہ حملہ آوروں کا رخ اسی طرف ہے۔لیکن ایک صبح کوئی ایلچی یہ پیغام لے کر آجاتا کہ چنگیز خان کی باقی افواج نے دوسری سرحد عبور کر کے دارالحکومت پر قبضہ کرلیا ہے۔
تاتاریوں کی حیرت انگیز کامیابی کا راز ان کی رفتار میں تھا۔وہ گھوڑوں کی ننگی پیٹھ پر سواری کرتے تھے۔ہر سوار کے ساتھ کئی کئی گھوڑے ہوتے تھے۔جب ایک گھوڑا تھک جاتا تو سوار دوسرے گھوڑے پر بیٹھ جاتا۔یلغار کے وقت اگر سوار کو بھوک محسوس ہوتی تو وہ گھوڑے کی پیٹھ پر زخم کر کے اس کے خون کے چند گھونٹ چوس لیتا تھا۔لمبے سفر میں بھی تاتاری اپنے ساتھ بہت کم سامان رسد اٹھاتے تھے۔جنگل میں وہ فالتو گھوڑے کھا لیتے اور راستے کے شہروں اور بستیوں سے مویشی چھین لیتے۔اگر کسی شہر کے باشندے بغیر مزاحمت کے ہتھیار ڈال دیتے تو تاتاری صرف ان لوگوں کو قتل کرتے تھے جنہیں سپاہیانہ خدمت کے قابل سمجھا جاتا تھا۔تا ہم ہر سپاہی مفتوح قوم کی عورتوں کی بے حرمتی اپنا حق سمجھتا تھا۔
اگر کوئی شہر مزاحمت کے بعد فتح ہوتا تو مکانوں کو آگ لگا دی جاتی اور مکینوں کو قتل کر دیا جاتا۔ہر فوج کا جرنیل اپنے سپاہیوں کو فتح کی یادگار تعمیر کرنے کا حکم دیتا اور تاتاری سپاہی نوجوانوں کے علاوہ بچوں،بوڑھوں اور عورتوں کے سر کاٹ کر مینار بنا دیتے۔پھر جس فوج کا مینار سب سے بلند ہوتا،اسکے افسروں اور سپاہیوں کو چنگیز خان شاباش دیتا تھا۔بعض اوقات دو سپاہیوں میں اس بات پر جھگڑا بھی ہو جاتا کہ تمہارا مینار اندر سے کھوکھلا ہے ورنہ آج میری فوج نے زیادہ سر کاٹے ہیں۔یہ وہ قوم تھی جس کے ہاتھوں عالم اسلام کی عبرت ناک تباہی مقدر ہو چکی تھی۔اس عالم اسلام کی تباہی،جو انتشار اور لامرکزیت کی حد کو پہنچ چکا تھا۔ان مسلمانوں کی تباہی جو غفلت کی نیند سو رہے تھے،جو احکام الہی پر عمل پیرا ہونے کی بجائے اپنی خواہشات کے مطابق اس کی تاویلیں گھڑنے کے عادی ہو چکے تھے۔ان کے پاس آدھی دنیا کو فتح کرنے والے اسلاف کی تلواریں اب بھی تھیں لیکن اسلاف کا ایمان نہ تھا۔ ٭

اپنا تبصرہ بھیجیں