ماہانہ اکاؤنٹ بیلنس پر بھاری بینک چارجز کی کتھا

گزشتہ چند دنوں میں یہ بات کافی مشہور ہوئی ہے کہ پانچ ارب سے زائد ڈیپازٹ رکھنے والے بینک اکاؤنٹس پر ہر مہینے کے آخر میں پانچ فیصد بینک چارجز لاگو ہوں گے جو پچیس کروڑ روپے بنتے ہیں۔

کچھ دوستوں کی فرمائش پر، فار دی سیک آف نالج، اس معاملے کی سائنس آپ کو بتا دیتا ہوں، امید ہے باآسانی سمجھ میں آجائے گی۔

امپلیمینٹیشن:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ابھی حتمی پوزیشن نہیں ہے کیونکہ یہ شیڈیول آف چارجز ابھی تک منظور نہیں ہوا، اگر منظور ہو بھی گیا تو متاثرین ہائیکورٹ میں چلے جائیں گے، اس پر اسٹے آرڈر ہوگا، پھر کیس چلے گا اور اس کے بعد ہی کوئی فیصلہ برآمد ہوگا۔

ایکوئیٹی پوزیشن:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عوام کے پیسے کے تحفظ کیلئے، equity position، قائم کرنا بہت ضروری ہوتی ہے تاکہ خدانخواستہ راتوں رات بینک اگر بھاگ جائے تو عوام کا سرمایہ انہیں لوٹایا جا سکے، یہ کیسے مینٹین ہوگی؟

فرض کریں آپ ایک بینک کے مالک ہیں اور فی الحال اس کی ایک ہی برانچ ہے کیونکہ آپ کے پاس بینک چلانے کیلئے صرف دس کروڑ ہے تو آپ یہ دس کروڑ روپیہ اسٹیٹ بینک میں بطور زرِضمانت جمع کرا دیں گے۔

اب آپ اپنے کسٹمرز یا اکاؤنٹ ہولڈرز سے صرف دس کروڑ روپے تک کا ڈیپازٹ جمع کر کے اپنے پاس رکھ سکتے ہیں لیکن اگر آپ کی سروس بہت اچھی ہے اور کسٹمرز نے آپ کے پاس پندرہ کروڑ روپے جمع کرا دیئے تو اوپر کے پانچ کروڑ روپے آپ فوراً اسٹیٹ بینک کے حوالے کر دیں گے۔

ایک بینک چلانے کیلئے آپ کو ہر روز اس طرح سے ایکوئیٹی پوزیشن مینٹین کرکے چلنا پڑتا ہے۔

انویسٹمنٹ کی لمٹ:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے بجلی کے چارجز نیپرا اور فیول پرائس اوگرا طے کرتی ہے اسی طرح بینک چارجز بھی اسٹیٹ بینک کی منظوری کے بغیر نافذ نہیں ہوتے اور یہ چارجز اتنے مائنر ہوتے ہیں کہ ان سے بینک کا اپنا خرچہ بھی پورا نہیں ہوتا کجا یہ کہ اس سے کھربوں روپے کا نفع حاصل ہو جائے۔

بینک کے نفعے کیلئے بینکر کو ایکوئٹی پوزیشن کے لحاظ سے دو تین گنا تک کی ایک انوسٹمنٹ لمٹ ملتی ہے جس میں پیسہ اسٹیٹ بینک کا لگتا ہے اور بطور بینکر آپ اس کے فرنٹ مین کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔

آپ مارکیٹ میں جاتے ہیں، لوگوں کو بزنس لون، ہوم لون، کار لون اور پرسنل لون وغیرہ آفر کرتے ہیں اور تیس کروڑ روپے اسٹیٹ بینک سے لیکر اپنے کوالیفائنگ کسٹمرز کو لون کی مد میں دے دیتے ہیں تو اس کا جو نفع آئے گا اس میں سے تقریباً 2/3 حصہ اسٹیٹ بینک کا ہوگا کیونکہ پیسہ اس کا لگا ہے اور ایک حصہ آپ کا ہوگا کیونکہ محنت آپ کی لگی ہے۔

مالیاتی سیکیوریٹی کی پوزیشن:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جتنا پیسہ عوام نے بینک کو دیا ہوتا ہے اتنا ہی بینک نے اسٹیٹ بینک میں جمع کرایا ہوتا ہے لہذا کوئی بینک بھاگ جائے تو عوام کو ناقابل تلافی نقصان نہیں ہوتا کیونکہ اس صورت میں اسٹیٹ بینک ان کو کمپنسیٹ کرنے کا پابند ہوتا ہے۔

بینک نے جو تیس کروڑ روپیہ اسٹیٹ بینک سے لیکر کمپنیوں کو لون کی مد میں دیا ہوتا ہے اس کی ضمانت میں مقروض کی پراپرٹی گروی رکھی ہوئی ہوتی ہے جس کی مکمل تفصیلات اسٹیٹ بینک کے پاس جمع ہوتی ہیں لہذا جب کوئی بینک بھاگ جائے تو قرضہ داروں پر اب بینک کی بجائے اسٹیٹ بینک کا چارج نافذ ہو جائے گا یعنی اسٹیٹ بینک ان سے خود وصولی کرلے گا۔

اے۔ڈی۔آر پوزیشن:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ وہ بنیادی فیکٹر ہے جس کی وجہ سے چارجز کا مسئلہ کھڑا ہوا ہے، یہ ایک مشکل سبجیکٹ ہے لیکن کوشش کروں گا آسانی سے آپ کو سمجھ آجائے۔

مثال کے طور پر، آپ دس کروڑ کی ضمانت سے ایک برانچ چلا رہے تھے اور ایک سال میں آپ نے دس کروڑ روپے کا نفع حاصل کیا تو کیا اب آپ یہ نہیں چاہیں گے کہ یہ دس کروڑ روپیہ بھی ضمانت میں جمع کرا کے ایک برانچ اور کھول لیں؟

یقیناً آپ بزنس کو بڑھانا چاہیں گے تاکہ آپ کی پبلک منی کلیکشن کی لمٹ اور انویسٹمنٹ کی لمٹ بھی ڈبل ہو جائے تاکہ اگلے سال آپ بیس کروڑ کا نفع حاصل کر سکیں۔

یہ جو آپ کی زرضمانت اور اس کے عوض حاصل ہونے والی لمٹ کے درمیان تناسب ہے اسے ایڈوانس۔ٹو۔ڈیپازٹ۔ریشو، یا اے۔ڈی۔آر کہتے ہیں۔

جس ملک میں بینکنگ سیکٹر کی اے۔ڈی۔آر پوزیشن جس قدر بہتر ہوگی اسی قدر اس کی اکانومی گروتھ کرے گی، دنیا میں یہ ریشو ستر فیصد کے قریب ہے جبکہ یہاں چالیس کے آس پاس ہے، مقامی بینکنگ سیکٹر اس ریشو کو پینتالیس فیصد تک لیجانے کی کوشش میں ہے۔

اس فیکٹر کی طاقت اور اکانومی میں اس کے کردار کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ صرف دس بارہ سال قبل میزان بینک کے علاوہ آپ کو کسی بینک کی اسلامک برانچ نظر نہیں آتی تھی لیکن ریسرچ سے پتا چلا کہ ایک بہت بڑا قابل کاروباری طبقہ کنوینشنل انٹرسٹ سے اوائڈ کرتا ہے اسلئے اگر اسلامک بینکنگ بڑھا دی جائے تو بہت اچھا سسٹین۔ایبل بزنس مل سکتا ہے لہذا ہر بینک نے اپنا کیپیٹل سلیش کرکے اسلامک سب۔سڈری قائم کی اور پھر اے۔ڈی۔آر سے اس کو پروان چڑھاتا گیا، آج ہر بینک کا اسلامک ڈویژن اس کے ریگولر ڈویژن سے زیادہ نفع اٹھاتا ہے۔

ٹیکس یا چارجز کی ٹگ۔وار:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئی۔ایم۔ایف نے پچھلے سال کی نسبت اس سال میں ستاون فیصد زیادہ ٹیکس کلیکشن کا ٹارگیٹ دیا ہوا ہے جس کی وجہ سے ٹیکس اتھارٹیز نے چند بینکوں کی آڈٹ رپورٹ میں ایک ٹیکنیکل آبزرویشن ڈالی ہے جس سے بینکنگ سیکٹر کا نفع، hurt، ہوا ہے۔

اس بات کو اس مثال سے سمجھیں کہ پہلے آپ نے ٹیکس ادا کرنے کے بعد دس کروڑ کا نفع کمانا تھا اور اپنی اے۔ڈی۔آر پوزیشن میں دس کروڑ کا اضافہ کرنا تھا لیکن اس نئے ٹیکس امپیکٹ کی وجہ سے اب آپ کو اسی اسکیل پر دس کی بجائے سات کروڑ کا نفع ہوگا جو آپ کی اے۔ڈی۔آر لمٹ بڑھانے کی صلاحیت کو تقریباً تیس فیصد تک کم کر دے گا۔

اب آپ کے پاس دو ہی راستے ہیں یا تو آپ کا ٹیکس ریورس ہو جائے یا اسٹیٹ بینک آپ کو اے۔ڈی۔آر میں لیوریج دیدے، یہ دونوں کام چونکہ ممکن ہوتے نظر نہیں آتے لہذا بینکوں نے یہ کمی اپنے سروس چارجز بڑھا کے پوری کرنا چاہی ہے۔

بینکوں کا پرافٹ چونکہ کھربوں روپے میں ہوتا ہے لہذا اے۔ڈی۔آر میں جو، shrink، پیدا ہوا ہے وہ بھی کھربوں روپے میں ہے اسلئے بینکوں نے ارب پتی ڈیپازٹس پر پانچ فیصد چارجز پروپوز کئے ہیں تاکہ ان کا کھربوں کا ڈیفیسٹ پورا ہو جائے۔

اس چیز کو لوٹ مار نہیں کہا جا سکتا کیونکہ یہ ایک ٹیکنیکل لڑائی ہے جس میں حکومت یہ چاہتی ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے لوگوں نے اپنا جو پیسہ کاروبار سے نکال کے بینکوں میں ذخیرہ کیا ہوا ہے اسے یا تو مارکیٹ میں لا کے میٹیریالائز کریں تاکہ اکانومی بہتر ہو یا پھر اس پر ٹیکس دے دیں۔

آپ کو یاد ہوگا کہ جن لوگوں نے درجنوں پلاٹ لیکر رکھے ہوئے ہیں، نہ بیچتے ہیں نہ بنا کے کرائے پر دیتے ہیں، اس سرمائے کو موبلائز کرنے کیلئے ان پر بھی انکم ٹیکس کے سیکشن سیون۔ای کے تحت ایک فیصد ٹیکس لگایا گیا تھا تاکہ لوگ مکان بنا کے کرائے پر دیں، فروخت کر دیں یا پھر ٹیکس دے دیں۔

یہ بھی ویسی ہی کہانی لگتی ہے کہ جو لوگ سرمائے کی ذخیرہ اندوزی سے اکانومی میں چوکنگ کا باعث بن رہے ہیں، ان۔ڈائیریکٹ وے میں ان کو موبلائز کیا جائے۔

اب بڑے اکاؤنٹ ہولڈرز بینک چارجز سے بچنے کیلئے یا تو پیسہ بینک کی لانگ ٹرم اسکیموں میں انویسٹ کریں گے یا نکال کے مارکیٹ میں لے جائیں گے یا پھر اس پر چارجز ادا کریں گے۔

لوگ بینک کی اسکیموں میں پیسہ لگا دیں گے تو بینک کو اپنی لمٹ بڑھانے میں جو خسارہ پیدا ہو رہا ہے وہ ڈائریکٹ ہی پورا ہو جائے گا کیونکہ پبلک۔منی جب اسکیم میں چلی جائے گی تو وہ اسٹیٹ بینک کیلئے آٹو۔گیرنٹیڈ ہو جائے گی جیسے لون کی مثال میں اوپر واضح کیا تھا لہذا اے۔ڈی۔آر بڑھائے بغیر بھی ان کی لمٹ بڑھ جائے گی یا پھر اے۔ڈی۔آر بڑھانے کیلئے مطلوبہ چارجز مل جائیں گے۔

اس مسئلے کا ممکنہ حل:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل اسٹیٹ بینک نے ایف۔بی۔آر پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ ایسی حرکت نہ کریں جو اسٹیٹ بینک کے ڈومین میں مداخلت کے مترادف ہو لہذا اپنی ٹیکس آبزرویشن کو ریورس کریں، بحوالہ بزنس ریکارڈر، 2 دسمبر 2024۔

گویا اسٹیٹ بینک نے یہ کہا ہے کہ مجھے ہاٹ۔واٹر میں مت دھکیلیں کیونکہ میں بینکوں کو ریلیف نہیں دوں گا تو ان کو اے۔ڈی۔آر میں سخت نقصان ہوگا جو کیپیٹل مارکیٹ میں نقصان پیدا کرنے کے مترادف ہے اور اگر ان کو ریلیف دیدوں تو پھر اکاؤنٹ ہولڈرز کو سخت نقصان ہوگا جو مارکیٹ اکانومی کا نقصان کرنے کے مترادف ہے۔

کیپیٹل مارکیٹ میں گورنمنٹ سیکٹر اور کارپوریٹ سیکٹر آتا ہے اور دیگر تمام بزنس مارکیٹ اکانومی میں آتے ہیں اسلئے یہ دونوں پارٹ ریاستی اقتصادیات کے نہایت اہم جز ہوتے ہیں۔

اسٹیٹ بینک اور بینکنگ سیکٹر حکومت کو صرف مشورہ دے سکتا ہے یا مذاکرات کر سکتا ہے لیکن اسے کورٹ میں نہیں لیجا سکتا، نہ یہ ایسا کریں گے البتہ بڑی بڑی کمپنیاں اور پارٹیاں جن کا اربوں روپے کا فنڈ رسک پر لگے گا وہ حکومت سے مذاکرات بھی کریں گی اور ناکامی کی صورت میں بینکنگ سیکٹر کو عدالت میں بھی لے جائیں گی، آگے پھر بینکنگ سیکٹر اپنا برڈن حکومت پر شفٹ کرے گا اور حکومت کوئی قابل عمل درمیانی صورت نکال دے گی جو قبول ہو جائے گی۔

اس کے بعد تمت بالخیر کچھ ایسا ہی ہوگا جیسا سیکشن سیون۔ای کے تحت پراپرٹیز کا ہوا، لوگ ڈمپ شدہ سرمایہ میٹیریالائز کریں گے یا اس پر ایک فیصد بینک چارجز یا ایک فیصد انکم ٹیکس ادا کریں گے، ممکن ہے اس ذخیرے کو بھی سیون۔ای کی طرح ڈیمڈ انکم ٹیکس میں ہی ڈال دیا جائے۔

امید ہے یہ ساری کتھا آپ کی سمجھ میں آگئی ہوگی۔
💐

نوٹ:
گزشتہ سال تربوز کی بہتر مارکیٹنگ پر ایک پوسٹ لکھی تھی تو ایک زرعی ادرے کے پروفیسر صاحب کتابی باتیں لیکر الجھنے آگئے تھے، انبوکس میں بھی کچھ بھیجتے رہے، مگر میں نے اوائد کیا کیونکہ میری وال پر بحث نہیں ہوتی، نہ میں اتنا فارغ ہوں نہ گنجائش دیتا ہوں۔

لہذا فائنانس کے لوگ مائنڈ نہ کریں، یہ پوسٹ کتابی اصولوں کی بجائے پبلک کو مدنظر رکھ کے سادہ مثالوں سے سمجھائی گئی ہے اور ہم چونکہ کسی پیپر کی تیاری بھی نہیں کر رہے اسلئے کسی سلیبس سے میچ کرنا ضروری بھی نہیں تاہم آپ اس بات کو بہتر طریقے سے سمجھا سکیں تو کمنٹ میں اپنا ورژن ضرور لکھ دیں تاکہ بہتر انڈرسٹینڈنگ مہیا ہو جائے۔

دوسرا یہ عام آدمی کا مسئلہ نہیں، آپ اس نظام کو سمجھ لیں اور یہ سمجھ لیں کہ اس پیسے کا سرکل میں آنا عوام کیلئے کتنا اہم ہے تو یہ بات بیجا تنقید اور بحث سے کافی بہتر ہے، کیونکہ پیسہ اور زمین بیشک کسی نے بھی کمایا ہو وہ بیک وقت حکومت کی ملکیت بھی ہوتا ہے لہذا اس کو جلانا یا ذخیرہ کرنا جس سے اکانومی شرنک ہو یا لوگ تنگ دست ہوں یہ بات خلافِ شریعت اور خلافِ آئین بھی ہے۔

از قلم: لالہ صحرائی

اپنا تبصرہ بھیجیں