ٹیکس ریٹرن کی بنیاد پر حادثاتی معاوضہ
ریٹرن فائلنگ کے سیزن میں ایک پوسٹ ہمیشہ وائرل ہوتی ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ انکم ٹیکس، آئی۔ٹی۔آر، فائلر اگر کسی حادثے کا شکار ہو جائے تو حکومت اس کے لواحقین کو پچھلی تین ٹیکس ریٹرنز میں بتائی گئی ایوریج آمدنی کا دس گنا معاوضہ دینے کی پابند ہے، جو نارملی پچاس لاکھ تک بنتا ہے مگر لاعلمی کی وجہ سے اکثر لواحقین اس معاوضے سے محروم رہ جاتے ہیں۔
اس بات کے جواز میں موٹروہیکل ایکٹ، 1989، کے سیکشن نمبر، 166 اور ہائیکورٹ کی اپیل نمبر 9858 آف 2013 SLP(c) کا حوالہ دیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلی بات یہ کہ ہمارے یہاں کے قانون میں انکم ٹیکس ریٹرن کو انکم اسٹیٹمنٹ کہتے ہیں، آئی۔ٹی۔آر بھارت میں کہتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ ہمارا موٹر وہیکل ایکٹ 1939 کا ہے جس میں کل سیکشن 124 ہیں، اس کے بعد کچھ شیڈیولز ہیں جن میں مختلف چیزوں کے پریسیڈنٹ طے کئے گئے ہیں۔
پاکستان موٹر وہیکل ایکٹ کے تیرہویں شیڈیول میں حادثاتی موت کی کمپنسیشن ڈھائی لاکھ روپے متعین کی گئی ہے اور ٹانگ یا بازو ٹوٹنے کی زر تلافی ڈیڑھ لاکھ روپے کے قریب ہے، اس میں فریقین کے درمیان تنازعہ ہو جائے تو فیصلہ عدالت کرے گی، تاہم اس کلیم کیساتھ مرحوم کی انکم ٹیکس ریٹرن کہیں بھی منسلک نہیں کی گئی ہے۔
تیسری بات یہ کہ بھارت کا اپڈیٹڈ موٹر وہیکل ایکٹ، 1989، کا ہے جس کا سیکشن، 166، حادثے کے متاثرین کیلئے کمپنسیشن کی بات تو کرتا ہے لیکن اس میں بھی معاوضے کی کیلکولیشن مرحوم کی انکم ٹیکس ریٹرن کیساتھ pegged نہیں ہے۔
چوتھی بات یہ کہ ہمارے جو کیس لاز ہیں وہ پاکستان لاء جرنل، PLJ اور پاکستان لاء ڈائجسٹ، PLD میں چھپتے ہیں، یہاں SLPc نامی کوئی جرنل نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اصل قصہ یوں ہے کہ مزکورہ ایپل نمبر، 9858، پنجاب۔ہریانہ مشترکہ ہائیکورٹ بھارت کا کیس ہے جس میں ایک مرحوم کی بیوی نے حادثے کے ذمہ دار شخص پر ہرجانے کا دعویٰ کیا تھا۔
اس کیس میں عدالت نے شائد یہ طے کیا تھا کہ مرحوم کے بچے جب تک نوکری کرنے کی عمر کو نہیں پہنچتے تب تک کا خرچہ ان کو ادا کیا جائے، یہ عرصہ دس سال کا بنتا ہوگا لہذا آمدنی کے ثبوت کیلئے مرحوم کی ٹیکس ریٹرن کو بنیاد بنایا گیا تھا جس کے مطابق تین سال کی ایوریج آمدنی پانچ لاکھ روپے بنتی تھی لہذا بیوہ کو دس سال کیلئے پچاس لاکھ روپے کا معاوضہ دلوایا گیا تھا۔
ایسے فیصلوں کو عدالتی نظیر یا کیس لاء کہا جاتا ہے جن میں مسئلہ حل کرنے کیلئے عدالت نے کوئی خاص مثال قائم کی ہو، پھر ان کیس لاز کو دیگر ملتے جلتے کیسز میں بھی بنیاد بنایا جاتا ہے تاکہ اس مثال کی روشنی میں وہ بھی حل کئے جا سکیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ عدالت کے سامنے جب بھی کوئی ایسا کیس آئے گا جس میں ایک پارٹی حادثے کے ذمہ دار شخص سے معاوضے کی دعویدار ہو تو مذکورہ کیس میں اختیار کئے گئے فارمولے کو بنیاد بنا کے معاوضے کی رقم طلب اور طے کی جا سکتی ہے۔
تاہم ملتے جلتے کیسز میں اگر سچوایشن تھوڑی بہت مختلف ہو تو پھر یہ عدالت کی مرضی پر ہے کہ وہ اس فیصلے کی مثال کو مانے یا نہ مانے، ممکن ہے کسی نئے نکتے کی بنیاد پر عدالت اس معاوضے میں تخفیف کردے اور ممکن ہے کسی وجہ سے وہ معاوضے کو بڑھا دے۔
بعد ازاں اس کیس لاء کی بنیاد پر کلکتہ اور راجھستان کی عدالتوں میں بھی حادثاتی معاوضے کے کچھ کیسز فائل ہوئے تھے جن میں مذکورہ کیس لاء کو ریفرنس پوائنٹ بنا کے معاوضہ طلب کیا گیا تھا اور وہیں سے یہ بات وائرل ہوئی تھی۔
کیا اس کیس کا پاکستان میں فائدہ ہو سکتا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ضمن میں دو باتیں یاد رکھیں کہ فیصلہ چاہے کسی بھی ملک کی عدالت کا ہو وہ انصاف کی فراہمی کیلئے دنیا بھر کی مشترکہ میراث ہوتا ہے لیکن اس پر ہر ملک کا نظریہ ضرورت غالب ہوتا ہے۔
مثلاً ایک مجرم کو یورپ میں صرف اسلئے چھوڑا جا سکتا ہے کہ وہ پڑھا لکھا اور قابل آدمی ہے اس کو سدھرنے کا ایک موقع ملنا چاہئے لیکن تیسری دنیا میں کوئی نہیں سدھرتا، ان کو جب تک مواخذے کا خوف نہ ہو یہ اپنے جرائم سے باز نہیں آتے لہذا وہاں کا ایسا فیصلہ یہاں قابل قبول نہیں ہوگا۔
اب مزکورہ کیس میں نظریہ ضرورت یہ ہے کہ جب تک بچے اپنے پاؤں پر نہیں کھڑے ہوتے اسوقت تک بچوں کی کفالت کا انتظام ہونا چاہئے، یہ نظریہ ہر جگہ کامن ہو سکتا ہے لیکن کس ملک میں کفالت کیلئے کتنی رقم درکار ہوگی یہ ہر جگہ مختلف ہوگی لہذا ہمارے پاس کوئی بہتر پیکج ہوگا تو ہم اس کو بنیاد بنائیں گے یا کوئی نیا پیکج تخلیق کریں گے یا اسی پر گزارہ ہو سکتا ہے تو اس کو بھی بنیاد بنا سکتے ہیں لیکن یہ مکمل طور پر عدالت کی صوابدید پر منحصر ہے۔
از قلم: لالہ صحرائی