رشتے داروں اور دوستوں کو بدمعاشی کا موقع نہ دیں

یہ جملہ آپ کو شائد عجیب سا لگ سکتا ہے، ہاں اگر آپ اپنی اولاد کو ایک نفسیاتی و ذہنی دباؤ سے بچانا چاہتے ہیں، تو اپنے رشتے داروں کو اپنے بچوں کو کسی بھی طرح سے تنگ کرنے کی اجازت نہ دیں۔ میں نے خاص طور پر رشتے دار کیوں لکھا ہے؟ کیونکہ اکثر رشتے دار ہی آپ کے بچوں کے ساتھ آپ کے سامنے ایسے جملے بول سکتے ہیں، آپ کے بچوں کے حلیے پر، ان کی عادات پر، ان کے معاملات پر، غیر مناسب تنقید یا واقعتا سنجیدہ موڈ میں یا ہنسی مذاق میں ایسے بے ہودہ قسم کے سوالات کر سکتے ہیں، جنہیں سن کر ممکن ہے کہ آپ کو بھی اچھا نہیں لگے گا، مگر آپ خاموش رہتے ہیں کیونکہ اگر آپ انہیں ایسے جملے بولنے سے روکیں گے، تو آپ کی رشتہ داری خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

بچوں کی شکل کے حوالے سے، ان کے بالوں کے حوالے سے، ان کی رنگت، ان کے جسمانی اعضاء پر، یا کسی بھی نوعیت کے اعتبار سے ان کی عادات کے اعتبار سے ان کے لباس پر اگر آپ کے بچے پر کوئی تنقید کرتا ہے، یا بچے کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے، ہوسکتا ہے کہ اپنے تئیں وہ سمجھا رہا ہوتا ہے لیکن اس کا انداز طنزیہ ہو سکتا ہے، یا اس میں حقارت یا ڈانٹ کی کیفیت موجود ہوسکتی ہے، تب آپ کو لگتا ہے کہ وہ ایک خاندان کا ایک بڑا فرد بطور ایک well wisher کے آپ کے بچے کے ساتھ یہ سب کر رہا ہے۔ اور چلیں مان لیں کہ آپ کو بھی لگ رہا ہو کہ یہ طریقہ درست نہیں ہے۔ لیکن آپ اپنی رشتہ داری کو قائم رکھنے کے لیے، بزرگ یا کسی بھی رشتہ دار خاتون کی وہ بات برداشت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا بچہ تو “ایک چھوٹا بچہ جو کل اس بات کو یا اس ڈانٹ کو بھول جائے گا” ۔ تو ایسا ہر گز نہیں ہے۔بچے ایسی باتیں کبھی نہیں بھولتے، اس کا اظہار نہیں کر سکتے وہ ایک “بند بوتل کی طرح ہوتے ہیں اور بوتل بند احساسات کبھی نہیں مرتے، وہ زندہ رہتے ہوئے دفن ہوجاتے ہیں، اور ساری زندگی بعد میں ان بچوں میں احساس کمتری اور بدصورت رویے مختلف صورتوں میں ابھرتے ہیں۔

اس لیے رشتے داروں کو کبھی بھی اپنے بچوں کے بچپن، معصومیت اور خوشی کو مسخ کرنے کی اجازت نہ دیں اور جب بھی آپ کے بچے اپنا بچپن یاد کریں تو وہ اسے خوبصورت احساسات اور رویوں کے ساتھ یاد رکھیں، یہ چیز آپ کے بچوں کی خود اعتمادی کو مجروح کرتی ہے اور ان کے لیے نفسیاتی مسائل پیدا کرتی ہے۔ جو مستقبل میں انہیں نقصان پہنچائی گی، اگر ایسے کسی لمحے میں آپ اپنے کسی رشتہ دار کو موقع پر ہی ٹوک دیں گے ممکن ہے وہ رشتے دار چند روز، ہفتے، مہینے یا سال بھر آپ سے ناراض ہوسکتا ہے، لیکن یہ آپ کے بچے کی نفسیاتی حفاظت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے جو اس کا بنیادی حق ہے، کہ وہ اپنے آپ کو کم تر محسوس کریں یا اپنے جسم یا شخصیت کے کسی حصے سے نفرت کریں۔ اس لئے ایسے کسی بھی موقع پر رشتہ داروں کو سختی سے منع کریں، اپنے بچوں کے ساتھ کسی کو بھی حدود سے تجاوز نہ کرنے دیں، چاہے وہ مذاق میں ہو یا سنجیدگی میں بات میں ہو یا عمل میں ہر صورت یہ رویہ ناقابل قبول رکھیں۔

اکثر قریبی عزیز ہی یہ ہمت کرتے ہیں، کہ آپ کے بچوں کو ان کی ہئیت و رنگ کی وجہ سے کسی نامناسب نام سے پکار لیتے ہیں، جیسے موٹو، پتلو، بچوں کو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ بہت گھنا ہے، یہ کتنا غیر مناسب لفظ ہے، بچوں کے لئے اس کا اندازہ لگانا ہی مشکل ہے کہ آپ کسی بچے کو ایک طرح سے دھوکے باز کہہ رہے ہیں، بچوں کے بارے میں ایسے الفاظ یا مذاق کرنا سختی سے روکنا چاہئے، جو بچے کے لیے ناپسندیدہ یا تکلیف دہ ہو، یہ سب کرنے والے والے چاہے آپ کی بہن، یا آپ کے بھائی، آپ کی پھوپھی، آپ کی خالہ یا چچا ماموں وغیرہ کوئی بھی کتنا ہی عزیز کیوں نہ ہوں، انہیں بچوں کی جسمانی ساخت پر تبصرہ یا تضحیک کرنے سے سختی سے روکنا چاہئے کہ جیسے آپ کا بچہ اس طرح کیوں نہیں بھاگ سکتا؟ اس کا رنگ ایسا کیوں ہے، اس کا قد عمر کے حساب سے کم ہے، وہ ایسے کیوں پڑھتا ہے، ایسے کیوں کھاتا ہے، وہ ٹھیک سے بول نہیں سکتا۔ وغیرہ وغیرہ، اصل میں یہ تمام منفی باتیں بچوں پر اثر انداز ہوتی ہیں اور ان کے دماغ میں رہتی ہیں اور اس عمر میں ان کا دماغ اس پر یقین کر لیتا ہے۔

ایسے تمام برے لفظ یا جملے بچوں کے ذہن پر چھا جاتے ہیں، اور وہ مختلف مسائل کی صورت سامنے آتے ہیں، بچوں کی خود اعتمادی متاثر ہوتی ہے، اور ان مسائل سے نکلنے میں انہیں وقت لگتا ہے، ایسے ہر برے لفظ یا تنقیدی و تضحیکی جملوں کے اثر کو دور کرنے کے لیے ایک تکیلف دہ مرحلے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، ایسے ایک جملے سے انہیں ذہنی طور پر چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے 100 اچھے جملوں کی ضرورت پڑے گی۔ اپنے بچوں کا دوسرے بچوں کے ساتھ نہ ہی خود موازنہ کرنا چاہیے نہ ہی کسی اور کا موازنہ کرنے دینا چاہیے، چاہے وہ اپ کے کتنے ہی بہترین رشتہ دار کیوں نہ ہو، کیونکہ ہر بچے کی اپنی شخصیت کی خصوصیات ہوتی ہیں، جو ایک بچے سے دوسرے بچے میں مختلف ہوتی ہیں، اور یہی موازنہ پہلی چیز ہے جو بچے کی شخصیت کو تباہ کرتی ہے اور خود اعتمادی کو کمزور کرتی ہے۔ آخری بات یہی ہے کہ افعال رویوں اور جملوں سے اپنے بچوں کے ساتھ ہونے والی ایسی بدمعاشی کو روکیں۔ کیونکہ یہ آپ کی ذمہ داری ہے، اور خود بھی بحیثیت رشتہ دار آپ دوسروں کے بچوں کے بارے میں جملہ بولتے وقت سو بار سوچیں کہ آپ کے جملے کا اس بچے پر کیا اثر ہوگا۔

تحریر: منصور ندیم
مورخہ 2 ستمبر، سنہء 2024.

اپنا تبصرہ بھیجیں