وحید مراد کا زوال
کہتے ہیں ہر عروج کو زوال ہے اور یہ بات اپنے دور کے چاکلیٹی ہیرو وحید مراد پر من و عن ثابت ہوتی ہے ۔ نوجوانی ہی میں اتنی زبردست کامیابی حاصل کر لینے کے باعث وحید مُراد بہت بد دماغ ہو گئے تھے اور ہر کامیابی کا سہرا صرف اپنے سر باندھنے لگے تھے چنانچہ اُن کے مستقل رائٹر، موسیقار، اور ہدایتکار اُن کی سنگت سے الگ ہوتے چلے گئے۔
اُدھر فلم سازوں نے وحید مُراد کو ایک ایسے ہیرو کے روپ میں منجمد کر دیا جو محض باغوں میں ہیروئن کے پیچھے پیچھے گیت گاتا پھرتا ہے، کبھی اسے چھیڑتا ہے کبھی مناتا ہے اور کبھی خود روٹھ جاتا ہے۔
اس طرح کا رومانوی ہیرو 1965 سے 1975 تک کے دس برسوں میں خاصا مقبول رہا لیکن لوگ ایک ہی طرح کی فلمیں دیکھ دیکھ کر اُکتا چُکے تھے۔ فلم ساز صرف آزمائی ہوئی چیز پہ پیسہ لگانے کے لیے تیار تھے۔
1980 کا سورج طلوع ہوا تو اس نے وحید مُراد کو ایک ناکام، مایوس، پراگندہ فکر اورجھنجھلائے ہوئے انسان کے روپ میں دیکھا۔ شہرت کی ہرجائی دیوی اب ڈھاکے سے آنے والے نئے ہیرو ندیم پر عنایات کی بارش کر رہی تھی۔ وحید کے پُرانے ساتھی پرویز، مسرور اور سہیل جنھیں خود وحید نے رعونت سے ُٹھکرا دیا تھا، اپنے اپنے میدان میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ ر ہے تھے۔
’کرن اور کلی‘ وحید مراد کو اپنی زندگی میں ملنے والی آخری کامیابی تھی۔ 1981 میں ریلیز ہونے والی اس فلم کے آگے پیچھے ان کی تین چار فلمیں فلاپ ہوئیں۔ اگلے برس بھی اُن کی کوئی فلم کامیابی حاصل نہ کر سکی فلمی اخبارچوں میں اب وحید مُراد کے خلاف اُن سب لوگوں نے اپنا غصّہ اگلنا شروع کر دیا جو وحید کے ساتھ ماضی میں کام کر چکے تھے اور اسکے رویے سے نالاں تھے۔
اپنے والد کی بدولت 20 برس کی عمر ہی میں وحید مراد فلموں کے تقسیم کار بن چکے تھے
ایک اخبار نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ 44 سالہ وحید مُراد میں اب دم خم باقی نہیں ہے۔ وہ ایک چلا ہوا کارتوس ہے۔ اسے خود ہی ایک طرف ہٹ کر نوجوان ندیم کے لئے راستہ صاف کر دینا چاہیے۔
وحید کو اب محمد علی اور ندیم کی فلموں میں سائیڈ رول ملنے لگے جو انھوں نے بادلِ نخواستہ قبول تو کر لیے لیکن دِل ہی دِل میں کُڑھتے رہے۔ انھی دِنوں ان کی شراب نوشی تفریحِ طبع کی حدود سے نِکل کر الکحولزم کے دائرے میں داخل ہو گئی۔
وحید مُراد کام مانگنے کے لیے اپنے پُرانے دوستوں کے پاس تو نہیں گئے لیکن اسی دوران اُن کا پُرانا پٹھان ڈرائیور اور گھریلو ملازم بدر مُنیر پشتو فلموں کا معروف سٹار بن چُکا تھا بلکہ اپنی فلمیں بھی پروڈیوس کر رہا تھا۔ نمک حلال ملازم نے پُرانے مالک سے وفاداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے اپنی پشتو فلم ‘پختون پہ ولائت کمبا’ میں کام دیا جو وحید مُراد نے قبول کر لیا۔
اپنے آخری ایام میں وہ اپنے چہرے پر پڑنے والے گہرے زخم کی سرجری کے لیے کراچی چلے آئے جہاں اپنے آپریشن سے ایک دِن پہلے انھوں نے بیٹے کی سالگرہ منائی، اسے بہت سے تحفے دیے اور رات سونے کے لیے اپنی منھ بولی بہن ممتاز ایوب کے گھر چلے گئے۔
اس رات کیا ہوا کوئی نہیں جانتا۔ وحید مُراد کے کمرے کا دروازہ دِن چڑھے تک نہ کُھلا تو میزبانوں کو دروازہ توڑنا پڑا۔
کمرے کے فرش پر پاکستان کا ایلوس پریسلے مُردہ پڑا تھا۔ اس کے منھ میں پان کا بیڑا تھا لیکن پان میں کیا تھا اس کی خبر کسی کو نہیں کیونکہ پوسٹ مارٹم اور مواد کے تجزیے کے بغیر کچھ کہنا ممکن نہ تھا۔
عجیب و غریب تاریخ