باقر خانی کی تاریخ

آپ نے باقر خانی کھائی ہو گی تو آج باقر خانی کی تاریخ بھی جان لیں

کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں لکھنو میں ایک حسین و جمیل طوائف تھی جس کا نام خانی بیگم تھا۔ نہ صرف خوبصورتی بلکہ اپنی نشست و برخاست کے حوالے سے بھی وہ لکھنو میں بڑی جانی مانی ہستی سمجھی جاتی تھی۔ اس دور میں نامور طوائف جسم فروشی نہیں کرتی تھیں صرف رقص و سرود کی محافل ہی منعقد کی جاتی تھیں۔ امراء اور نوابین اپنے بچوں کو ان طوائفوں کے یہاں آداب سکھانے بھیجتے تھے.
خانی بیگم کے کئی چاہنے والے تھے جو نہ صرف ان کی خوبصورتی کے اسیر تھے بلکہ ان سے شادی کے خواہشمند بھی تھے۔ کئی نوابین بھی انھیں اپنے حرم میں جگہ دیناچاہتے تھے۔ ان ہی میں ایک باقر علی خان تھے جو خانی بیگم سے شدید محبت کا دعویٰ کرتے تھے جبکہ ان ہی کے ہم عصر نواب جمن خان بھی خانی بیگم کے اسیر تھے۔ دونوں نواب چاہتے تھے کہ خانی بیگم ان کے حق میں فیصلہ دیں۔ خانی بیگم بھی جانتی تھیں کہ اتنے چاہنے والوں میں مذکورہ دونوں نواب ہی ان کے اصل طلبگار ہیں لیکن اس سے پہلے کہ وہ کسی ایک کے حق میں فیصلہ کرتیں کسی نے رات کی تاریکی میں انھیں ان کے کوٹھے میں ہی قتل کردیا۔ قتل کی۔تفتیش یہ کہہ کر ہی جلد ہی بند کردی گئی کہ ان کے کسی ناکام عاشق نے یہ حرکت کی اور فرار ہوگیا۔ نواب جمن اور نواب باقر علی خان کی تو مانو دنیا ہی اجڑ گئی۔
نواب جمن نے تو پھر بھی جلد ہی خود کو دوسری مصروفیات میں الجھا لیا لیکن نواب باقر علی خان صرف اپنی حویلی تک محدود ہو کر رہ گئے۔ نہ کہیں آتے تھے نہ ہی کسی سے ملتے تھے۔ سارا سارا دن صرف خانی بیگم کی یاد میں گھلتے رہتے ہیں۔ بالاخر ایک روز ان کے ایک منہ چڑھے دوست ان سے ملنے حویلی آئے اور ان کی یہ حالت دیکھ کر انتہائی برہم ہوئے اور انھیں اپنی دوستی کا واسطہ دے کر اودھ کے بازار لیکر آئے۔
اودھ کے اس سنہرے دور میں جہاں نوابین کے دیگر مشغلوں کے رواجوں اور فرمائشوں کا خیال رکھا جاتا تھا وہیں آئے روز کھانے کی بھی کوئی نہ کوئی نئی ڈش ضرور بنائی جاتی تھی اگر تو وہ ڈش نوابوں کو پسند آ جاتی تو پھر اسے ہر باورچی ہی بنانے لگتا اور اگر پسند نہ آتی تو اسے فوراً ہی ترک کردیا جاتا۔الغرض نواب باقر علی خان کے دوست انھیں اودھ کے مشہور نانبائی کے یہاں لے آئے اور اسے کچھ خاص لانے کی فرمائش کی۔ نانبائی بھی شاید جانتا تھا کہ نواب باقر علی خان کو کوئی عام ذائقہ کہاں بھائے گا چنانچہ اس نے جلد ہی اپنی سب سے نئی تخلیق ان کے سامنے پیش کردی۔ باقر علی۔خان نے بڑی بے دلی سے ایک لقمہ توڑا اور منہ میں رکھا۔
ایک لحظے کے لیے انھیں ایسا لگا مانو منہ میں ذائقوں کی بہار اتر آئی ہو۔ انھوں نے فوراً ہی اسے بنانے والے نانبائی کو طلب کیا۔ نانبائی بےچارہ یہ سمجھا کہ آج اس کا سر قلم کرہی دیا جائے گا کہ وہ روٹی جو اس نے خود بھی پہلی بار ہی بنائی تھی اس کا ذائقہ خود اسے بھی پتہ نہیں تھا کہ کیسا تھا۔ وہ ڈرتے ڈرتے باقر علی خان کے سامنے گیا تو انھوں نے اس سے پوچھا کہ یہ روٹی تم نے بنائی ہے۔ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ باقی علی خان نے پوچھا کہ اس کا نام کیا ہے۔اب تو نانبائی اور گھبرایا کہ ضرور روٹی میں کوئی نقص تھا جب ہی اس کا نام پوچھ رہے ہیں۔ اس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے بتایا کہ اس نے یہ روٹی کچھ نئے طریقے سے بنائی ہے اور ابھی اس کا نام کچھ سوچا نہیں تھا کہ حضور کے سامنے پیش کردی۔ اگر حضور کہیں گے تو وہ آئندہ کبھی اسے نہیں بنائے گا۔
تب باقر علی نے نانبائی کو بتایا کہ انھیں یہ روٹی اتنی پسند آئی تھی کہ وہ اس کا نام جاننا چاہتے تھے۔ نانبائی یہ سن کر اتنا خوش ہوا کہ اس نے نواب صاحب سے ہی اس روٹی کو کوئی نام دینے کی درخواست کی۔ تب نواب باقر علی خان نے اپنے دوست اور اس شاہی نانبائی سے کہا کہ ہم جن سے محبت کرتے تھے ان کا نام خانی تھا اور ہمارا باقر ہے۔ زندگی میں تو ہم مل نہ سکے تو کیوں نہ اس روٹی کا نام ہی “باقر خانی” رکھ دیں۔ دنیا میں جب بھی اور جہاں جہاں بھی یہ روٹی کھائی جائے گی لوگ ہمارا نام ایک ساتھ لیں گے۔ نواب باقر علی خان کے منہ سے نکلی بات فوراً ہی قبول کرلی گئی۔
یوں اس طریقے سے بنائی جانے والی روٹی اب بھی کئی تغیر اور مختلف اشکال کے ساتھ آج بھی پاک و ہند میں کھائی جاتی ہے اور لامحالہ باقر اور خانی کا نام ایک ساتھ مربوط ہے۔۔

ازقلم،
علینہ عرفان سخی۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں