جگنی دشمن کے نرغے میں
جب کسی قوم کو غلام بنانا مقصود ہو تو انکی تاریخ ، ادب ، ثقافت ، زبان اور شناخت ۔۔سب مسخ کر دیے جاتے ہیں ۔اور ان کو احساس کمتری میں مبتلا کر کے اپنی برتری مسلط کر دی جاتی ہے ۔۔اور پھر جب ایک قوم علم کے میدان میں پروڈیوسر کے درجے سے گر کرکنزیومر کے درجے تک آ جائے تو وہ خود اپنے ساتھ انصاف نہیں کر پاتی اور خود کو دشمنوں کی نظر سے ہی دیکھنے لگتی ہے ۔۔اسکے دیے گئے بیانیوں کو من و عن تسلیم کرنے لگتی ہے ۔ تحقیق سے اسکا ناطہ ختم ہو جاتا ہے ۔۔
آجکل انٹرنیٹ پر پنجاب لوک شاعری کی مقبول صنف ” جگنی” کے بارے میں عجیب قسم کی پوسٹس گردش کر رہی ہیں جن میں جگنی کو ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی سے منسوب کیا گیا ہے ۔۔۔ اس سے قبل بھی کیی دانشور بشمول جاوید چودہری ایسا دعوی کر چکے ہیں ۔۔۔ جناب جاوید چودھری نے اپنے کالم ’’ہم آج بھی جگنی سے باہر نہیں آتے‘‘ میں اسے 1887 میں ملکہ وکٹوریہ کی ہندوستان میں تاجپوشی کی گولڈن جوبلی سے جوڑ کر ’’جگنی‘‘ کو ’’جوبلی‘‘ کا بگاڑ بنا دیا۔ حالاں کہ اس گولڈن جوبلی سے پہلے ہی یہ گیت اور لفظ پنجابی زبان و لوک ادب کا حصہ تھا۔۔۔۔
اسکا ذکر ہمیں انڈین سول سروس ایڈمنسٹریٹر H.A Rose کی 1882 میں شائع ہوئی اسٹڈی
A glossary Of Tribes and Caste of Panjab and Nort West Frontier Province
میں ملتا ہے جہاں شادی کے موقع پر اٹھارھویں صدی کے مشہور شاعر مولوی غلام رسول کی لکھی ” جگنی چھلا ” کے گائے جانے کا ذکر ملتا ہے ۔۔ اس لئے جگنی کو 1887 میں ہوئی تاج پوشی سے منسوب کرنا اور 1908 میں دو بہنوں کی ایجاد قرار دینا ایک بہت بڑا تاریخی مغالطہ ہے ۔۔
دراصل پنجابی ادب کی خاص پہچان اسکا قصہ گوئی کا اسلوب ہے ۔۔یہی اسلوب جگنی کا بھی ہے ۔ جگنی ایک آزاد منش فیمیل narrator ہے جو گلی گلی نگر نگر گھومتی ہے اور اپنے مشاہدات جگنی کی شکل میں بیان کرتی ہے ۔۔ جگنی لوک شاعری کی ایسی صنف ہے جو کیی صدیوں سے تواتر کے ساتھ نسل در نسل منتقل ہوئی ہے۔۔اور اگر ہم پنجابی ادبی روایت میں اس تھرڈ پرسن narration کی تاریخ دیکھیں تو گیارھویں صدی میں بابا فرید اور بلھے شاہ کی شاعری میں اسکے ٹھوس نشان ملتے ہیں ۔۔۔
اس معاملے میں جناب محمود احمد کی تحقیق بھی بہت اہم ہے ۔۔۔ کہتے ہیں کہ
“حکومتِ پنجاب کی سرپرستی میں منشی گلاب سنگھ و برادران نے خالصہ کالج کونسل کے رکن مایا سنگھ سے ایک پنجابی لغت لکھوائی، جسے امرتسر کے ڈاکٹر ایچ ایم کلارک نے ’’پاس‘‘ کیا اور پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی کی وساطت سے 1895 میں اسے چھاپ دیا گیا۔ کتاب کے دیباچے کے مطابق یہ 1854 میں چھپنے والی لغت کا ترمیمی ایڈیشن تھا۔ اس کے مطابق ’’جگنی، عورتوں کا گردن میں پہننے کا ایک زیور ہے۔ اس سے متعلق گیت بھی ’’جُگنی‘‘ کہلاتا ہے۔‘‘ یہ سلنڈر نما زیور ریشمی دھاگوں کی بغیر بل کی رسی میں پرویا ہوتا ہے جس سے اسے گردن کے گرد پہن لیا جاتا ہے اور خود جگنی گردن کے ساتھ لٹک جاتی ہے۔ پنجابی لوک ادب میں اسی طرز کی ایک اور مثال چھلا ہے۔ گویا مختصراً آپ جگنی کو گیت کہہ سکتے ہیں۔
بطور زیور جگنی کا ذکر وارث شاہ صاحب کی ہیر (1766/67 عیسوی) میں ہیر کے جہیز کے ذکر کے ایک حصے میں ملتا ہے:
سکندری، نیوری، بیر بلیاں، پپل وترے، جھمکے ساریا نیں
ہس جڑے، چھڑ کنگناں، نال بودا بدھی ڈول میانڑا دھاریا نیں
چنن ہار، لوہلاں، ٹکا، نال بیڑا اتے ’’جگنی‘‘ چا سواریا نیں
بانکاں، چوڑیاں، مشک بلایاں بھی نال مچھلیاں والڑے ساریا نیں
بندے، آرسی نال انگوٹھیاں دے، عطر دان، لدن ہریاریا نیں
داج گھت کے تونک صندوق بدھے، سنو کیہ کیہ داج رنگایا نیں
وارثؔ شاہ میاں اصل داج رانجھا، اک اوہ بد رنگ کرایا نیں
[ہیر، صفحہ 233-34، مرتبہ ڈاکٹر فقیر محمد فقیر، مطبوعہ تاج بک ڈپو، اردو بازار، لاہور]
زیور کے معنوں کی تصدیق ان مصرعوں سے ہوتی ہے:
میری جگنی دے دھاگے بگے
جگنی اوہدے مونھ تے پھبے
جنہوں سَٹ عشق دی لگے
جگنی میں چھوٹے چھوٹے گھنگرو ہوتے ہیں۔ ان کی آواز کو یوں وسیع معنوں میں استعمال کیا گیا:
ہو پیر میریا جگنی کہندی آ
جیہڑی نام سائیں دا لیندی آ
جیہڑی نام رب دا لیندی آ
معنوی وسعت پا کر جگنی گیتوں میں کسی شخص کے لئے استعارہ بن گئی۔ یہ جہاں جاتی ہے وہاں کی خصوصیات یا احوال بھی بیان کرتی ہے، مثال کے طور پر:
جگنی جا وڑی ملتان
اوتھے وڈے وڈے پہلوان
مارن مُکّی، کڈھن جان
جگنی جا وڑی کلکتے
اوتھے لے کتاباں نچے
باندر کھڑکی اوہلے ہسے
جگنی بتاتی ہے کہ کون سا علاقہ کس طرح کا ہے۔ اس میں ظریفانہ پہلو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کیوں کہ ظرافت میراثیوں کے گانے کا مقصد بھی ہوتا تھا۔
جگنی جا وڑی مجیٹھے
کوئی رَن نہ چکی پِیٹھے
پُت گبھرو ملک وچ مارے
روون اکھیاں پاڑ، بُلھ سی سِیتے
پیر میریا او جگنی آئی آ
ایہناں کیہڑی جوت جگائی آ
جگنی جا وڑھی لدھیانے
اوہنوں پَے گئے انہے کانے
مارن مُکّیاں منگن دانے
پیر میریا او جگنی کہندی آ
جیہڑی نام علی دا لیندی آ
اسی طرح جگنی، محبوب اور اس کے حسن و خوبی کے لئے استعارہ بنا۔ مثال کے طور پر ایک فیس بک پوسٹ دیکھی:
جہنوں آؤندا ناں قینچی سیکل چلاؤنا
جگنی رکھدی ہتھ فراری تے
گرو گرنتھ صاحب سکھوں کی مقدس کتاب ہے۔ وہاں سے مذہبی نوعیت کے مواد نے فقیروں کی بانڑی کی شکل پائی۔ اس جیسی شاعری کے ماحول میں جگنی بنی اور اس میں مذہبی اور صوفیانہ رنگ جھلکنے لگا۔ اور مذہب قریب قریب ہر سنجیدہ پنجابی صنف میں شامل ہوا اور اس سے دور ہوتا گیا۔ یہی حال جگنی کا ہوا۔ جگنی بالآخر اپنی بیش تر خوبیوں سے کنارہ کش ہوتی ہوئی بالآخر گیت میں ایک مٹیار بن کر اپنی تمام گہرائی کھو چکی اور اسی قدر دلکش ہے جس قدر اچھا ماضی ہوتا ہے۔”
آزادی تب تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک اپنی دنیا ، اپنی حقیقتوں ، اپنی تاریخ ، اپنے ادب کو ہم خود اپنی نظر سے دیکھنا اور ڈیفائن کرنا نہ شروع کر دیں ۔اسکے لئے ضروری ہے کہ ہم ایسے بیانیوں اور ڈسکورس کو بنا تحقیق ماننے کی بجاۓ ان کا تنقیدی جائزہ لیں، تحقیق کریں اور اپنی تاریخ ، ادب ، شناخت کو ڈی کولونائز کریں ۔۔
منقول.