پرہیز علاج سے بہتر ہے.
صدیوں پرانا قصہ ہے کہ بدقسمتی سے کسی گاٶں کے نیم حکیم ایک شادی شدہ عورت کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر ہو گئے، جس کے حسن کے چرچے تھے۔ اس کی چشمِ قاتل کے تیکھے ورمے نے حضرت کے لوہے ورگے دل میں سوراخ کر دیا اور آپ اس پر لٹو ہو گئے۔ شادی بیاہ اور میلو ں ٹھیلوں میں ڈھول بجانا عورت کے خاندان کا پیشہ تھا۔ وہ کبھی دوا دارو کے لیے نیم حکیم صاحب کے پاس جاتی تو وہ بڑی دلچسپی اور تفصیل سے اس کی نبض چیک کرتے اور ملفوف الفاظ میں اپنا حالِ دل بھی ضرور سناتے۔ اس کا بچہ بھی جب کبھی حضرت کے سامنے آتا تو وہ اسے چپکے سے کہتے ”تمہاری ماں کا کیا حال ہے؟ اسے میرا سلام کہنا‘‘ خوش شکل خاتون نے بڑا عرصہ سلام برداشت کیے مگر جب اس کی خیریت کے متعلق نیم حکیم ضرورت سے زیادہ فکرمند رہنے لگے تو اس نے اپنے خاوند کو ان کی تشویش سے آگاہ کر دیا۔ اس سنگین مسئلے پر ڈھول بجانے والے خاندان کے مردوں کا ایک اجلاس منعقد ہوا، جس میں حضرت کی صحت کاملہ کے لیے دعا کی گئی اور ان کے دردِ دل کے علاج کے لیے مختلف طریقوں پر غوروخوض کے بعد ایک جوہر ہزار شفا اسلوب فائنل ہوا۔ طے شدہ علاج کے مطابق خاوند نے اپنی زوجہ سے کہا کہ وہ حضرت کو پیغام بھجوا دے کہ اس کا خاوند آج گھر پر نہیں، لہٰذا رات کا کھانا جھگی فقیراں میں تناول فرمائیں۔ نیز اس مبارک موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال بھی ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ عورت نے طے شدہ شیڈول کے مطابق پیغام بھجوایا تو حضرت خوشی سے لال و لال ہو گئے۔ تیر نشانے پر بیٹھا تھا، چنانچہ دو گھنٹے کی جان توڑ تیاری میں آپ نے خضاب کو زینت ریش مبارک بنایا، آنکھوں میں وافر مقدار میں سُرمہ لگایا اور کان میں عطر میں ڈبوئی روئی ٹھونس کر خراماں خراماں کوئے یار کی طرف رواں ہو گئے۔
دل پذیر محبوب نے نیم حکیم کا گرمجوشی سے استقبال کیا اور انہیں ایک کمرے میں تشریف رکھنے کو کہا۔ عین اس وقت دوسرے کمرے سے خاندان کے مردوں پر مشتمل ظالم سماج کا ڈنڈوں سے مسلح ایک ٹولہ برآمد ہوا۔ انہوں نے عورت کو چھت پر جا کر ڈھول بجائے کو کہا۔ مراثیوں کے گھر میں ڈھول بجانے کی ریہرسل معمول کی بات تھی، چنانچہ اہل دیہہ کو حالات کی سنگینی کا ادراک نہ ہو سکا۔ اِدھر ظالم سماج کے ٹولے نے حضرت کی ڈنڈوں سے سیوا شروع کی تو انہوں نے بے ساختہ ڈھول کی تھاپ پر رقص کا آغاز کر دیا۔ آپ بہت چیخے چلائے مگر ان کی آواز ڈھول کی دلفریب دھنوں میں دب کر رہ گئی۔ المختصر! جب سیوا کرنے والے ٹولے نے حضرت کو گھر سے باعزت رخصت کیا تو ان کا اَنگ اَنگ ڈھول بجا رہا تھا اور نیم حکیم، نیم جاں ہو چکے تھے ۔
حسب توقع مراثیوں کی ڈنڈا ڈولی تیر بہدف نسخہ ثابت ہوا اور حضرت کو عشق جیسے موذی مرض سے نجات مل گئی۔ تاہم اس علاج کا سائیڈ افیکٹ یہ سامنے آیا کہ وہ مستقل طور پر ایک نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہو گئے۔ نیم حکیم جب بھی کہیں ڈھول کی آواز سنتے تو ان کا ”تراہ‘‘ نکل جاتا اور آپ خوف سے جھرجھری لے کر فرماتے ”اوہ ! آج پھر کوئی مسکین پِٹ رہا ہے‘‘
سبق: پرہیز علاج سے بہتر ہے۔