پانچ سال بعد

گڈ مارننگ مراد صبح کے سات بج چکے ہیں۔ آفس جانے کا ٹائم ہو گیا ہے۔ میں نے آنکھیں کھول کر نیم وا آنکھوں سے کمپیوٹر کی طرف دیکھا جو شیڈول کے مطابق سات بجے آٹو آن ہو گیا تھا ۔ رات کو لیٹ سویا تھا اسلئے نیند کا خمار ابھی بھی باقی تھا۔
میں نے کسمسا کر کروٹ بدل لی۔ اور کہا سونے دو بابا
میں بابا نہیں ہوں۔ میں آپ کی مصنوعی ذہانت کی اسسٹنٹ ہوں۔ اور میرا نام برائینا ہے۔
جو بھی ہے ۔ آج موڈ نہیں ہے۔
ٹھیک ہے سر آپ پندرہ منٹ مزید سو لیں۔ اسکے بعد بھی نہ اٹھے تو میں سائرن بجا دوں گی۔
پندرہ منٹ پورے ہوتے ہی برائینا نے پولیس سائرن الام بجا دیا اور مجھے مجبورا اٹھنا پڑا۔
گڈ مارننگ اگین سر۔۔
میں نے کہا ذرا چائے کی مشین آن کرکے چائے گرم کردو۔
سوری سر چائے کی مشین میں بلکہ آپ کی پانی کی ٹینکی میں ہی پانی ختم ہوگیا ہے۔ ویسے سر آپ کی نئی حکومت بھی ان پانچ سالوں میں کوئی ڈیم نہیں بنا سکی۔ اور اب تو آپ منرل واٹر بھی انڈیا سے منگواتے ہیں۔
میں نے بے بسی سے سر جھٹکا اور منرل واٹر کی بوتل آٹھائی جس پر انڈین کمپنی کا لیبل لگا ہوا تھا ۔ اور چائے کی مشین میں وہ پانی انڈیل دیا۔
ابھی چائے گرم ہونے ہی لگی تھی ۔ کہ بجلی چلی گئی۔ اور میرا سمارٹ آٹو خودکار گھر جس کو میں نے بڑی مشکل سے پیسے جوڑ جوڑ کر بنوایا تھا۔ ایک غریب کی جھونپڑی بن کر رہ گیا۔ لیکن خیر سولر سسٹم میں نے لگایا تھا۔ اور چند لائٹس اور میرا عزیز جان میری روزی روٹی میرا کمپیوٹر آن رہا۔
اس سے پہلے کی برائینا اب بجلی کے جانے پر بھی طنز کرتی۔ میں نے برائینا کو کہا۔ آج کا کیا شیڈول ہے۔
سر فائیور پر دو تین آڈر آئے تھے جو میں نے خود ہی حل کر دئیے تھے۔ آپ چیک کرکے فائنل کردیں۔ اور آپ کے کچھ ریگولر کلائینٹس کے بھی کچھ میسجز آئے تھے۔ کچھ کو ریپلائی کردیا ہے۔ باقی آپ چیک کرلیں میں وہ بھی کردیتی ہوں۔
میں نے ہالف گرم چائے کا کپ بد دلی سے ایک ہی گھونٹ میں معدے میں اتار کر پوچھا۔ مہینے کی شروعات ہیں۔ پیمنٹس اور چیکس کا کیا بنا۔
سر آپ کی اس مہینے ٹوٹل 500 ڈالر انکم ہوئی ہے۔ 100 ڈالر فائیور نے کاٹ لئے ہیں۔ کچھ ڈالر پائیونیر نے ۔ باقی جو بینک میں ٹرانسفر ہوئی ہے۔ اس پر فری لانسنگ ٹیکس انکم ٹیکس، جنرل ٹیکس ، گورنمنٹ ٹیکس۔ اور ایکسٹرا ٹیکس ملا کر آپ کے پاس 200 ڈالر باقی بچ گئے ہیں۔
اسکے علاوہ آفس رینٹ، ہوم رینٹ ،بجلی اور نیٹ کا بل بھی ادا کردیا ہے۔ باقی ٹوٹل آپ کے دس روپے اکاؤنٹ میں بچ گئے ہیں۔
دس روپے ، میں نے ایک ٹھنڈی ، لمبی اور سرد آہ بھری۔ دس روپے کر ترترے ہی منگوا دو۔
سر ترترے نہیں کرکرے ہوتا ہے۔ اور کرکرے آج کل دس روپے میں نہیں ملتے۔
میں نے ایک اور ٹھنڈی آہ بھری ۔ اچھا پھر ایک کام کرو ۔ فیس بک پر ایڈ دے دو۔ پندرہ ہزار میں ویب سائٹ بنوا لو۔
سر پاکستان میں آج کل کوئی ویب سائٹ نہیں بنواتا، پاکستانی کریک سوفٹ وئیر کی مدد سے آٹو میں ویب سائٹ بنوا لیتے ہیں۔ اور کوئی سخی بندہ بھی آپ کو تین ہزار سے زیادہ نہیں دے گا۔ پہلے ہی سے سستے ڈی ویلپرز نے مارکیٹ ڈاؤن کردی ہے۔
اچھا تو میں جاتا ہوں۔
سر کہاں چلتے ہیں۔
پانچ سال پیچھے ۔۔۔
پانچ سال پیچھے ۔۔ وہ کیوں سر۔۔
بہت سے کام کرنے ھیں۔ ایک تو ووٹ کسی بندے کے پتر کو دینا ہے۔ جو آنے والے پانچ سالوں کے لئے کچھ تو کر سکے۔ ڈیم بنا سکے، ٹیکس کم کر سکے اور دوسرا مستقبل کے لئے ابھی بہت کچھ سیکھنا باقی ہے۔ اس وقت صرف ویب ڈی ویلپمنٹ نہیں چلے گی ۔ بلکہ نئی خودکار ٹیکنالوجی کے لئے خود بھی نئی تیکنالوجی نئی چیزیں سیکھنا ہوگی۔ ہمارا خود کا نئی ٹیکنالوجی سے ہی مقابلہ ہوگا۔ اور انشاءاللہ خودکار ذہانت اور مشینیں ہماری غلام ہی بن کر رہے گی نہ کہ ہم مشینوں کے غلام بن کر رہیں گئے۔
از قلم: مراد خان

اپنا تبصرہ بھیجیں