ٹیکنالوجی 2035 قسط 7

واپس آکر میں اور گاما ، کام میں جت گئے۔ آج کے لئے دو روبوٹس سیلیکٹ کئے۔ اور ان پر کام شروع کردیا۔سارہ کلائنٹس سے میٹگ کے لئے آفس سے باہر چلی گئی ۔ آج کے منتخب کردہ دونوں روبوٹس کا میں نے معائینہ کیا۔ ان کے ہاتھ اور پاؤں کچھ ڈیمج تھے۔ کیبلز بھی چوہے کھا چکے تھے۔ مدر بورڈ کٹ بھی گردو غبار میں اٹھی ہوئی تھی۔یہ روبوٹس چار سال پرانے تھے۔ لیکن فیکٹری سے اسکے پرزے مل گئے تھے۔ گامے نے او ر میں نے سب سے پہلے تو انکے پارٹس سے شروعات کی۔ جو پارٹس بالکل ہی ڈیمج تھے۔ انکو ہم نے بدل دیا۔ اور اسکی جگہ نئے پارٹس فٹ کردئے۔ اسی دوران میں سارہ نے کھانا بھی بھجوا دیا۔ کھانا کمال کا مزیدار تھا۔ بریانی اور قورمے کے ساتھ کچھ نئی ڈشیز بھی تھی۔ جن کی پیکنگ پر حلال کا مونو گرام بنا ہوا تھا۔ انگریزوں کے کھانوں سے تو مجھے ویسے ہی و ہم سا لگا رہتا تھاکہ اس میں کوئی حرام چیز شامل نہ ہو۔انٹرنیٹ پر اس وقت آن لائن سٹور اور فوڈ ز کا کا کاروبار کافی عروج پر تھا۔ ایک ہی کال پر آپ کو کسی بھی ملک کی کوئی خاص پروڈکٹ اور کھانے فورا ہی مل جاتے تھے۔ اسلئے میں اگر ملک سے باہر ہوتا تو ہمیشہ آن لائن ویب سائٹ پر آڈر کے ذریعے کھانا منگواتا۔ ان یورپین کھانوں پر حلال کا مونو گرم دیکھ کرانجانی سی خوشی ہوتی تھی۔اور کھانے کا ذائقہ بھی اچھاہوتا تھا۔ سارہ کی مہمان نوازی واقعی قابل ستائش تھی۔ میرے پاکستانی ہونے کی وجہ سے وہ کھانے پینے کے معاملے میں میرا خاص خیال رکھ رہی تھی۔ جیسے کوئی اسکے ننھیال سے مہمان آگیاہو۔۔
کھانے کے بعد نیند کا زبردست خمار چڑھ گیا۔ میں رات کا سویا بھی نہیں تھا ۔سوچ رہا تھا کہ اینٹی سلیپنگ ٹیبلٹ کھا لوں لیکن تھکاوٹ بھی اب محسوس ہو رہی تھی۔ نیند اور تھکاوٹ ختم کرنے کی ٹیبلٹ موجود تھی۔ لیکن میں اس کا عادی نہیں بننا چاہتا تھا۔ اسلئے بہت کم استعمال کرتا تھا۔ کیونکہ اسکے سائیڈ ایفیکٹ بہت تھے۔ قدرت نے انسانی خلیوں کو ایک خاص میکنزم کے تحت بنایا ہے۔ نیند لینے سے ہمارے خلئے خاص کر دماغ کے خلئے دوبارہ ایکٹیو ہوجاتے ہیں۔ اور ٹیبلٹ استعمال کرنے پر ہم نیند اور تھکاوٹ تو ختم کرسکتے تھے دماغ کے خلیوں کو ایکٹیو نہیں کر سکتے تھے۔ اور نتیجے کے طور پر ان خلیوں پر بہت برا اثر پڑتا تھا۔ اسلئے چار گھنٹے کا الارم لگا کر اور گامے کو ہدایات دے کر سو گیا۔
چار گھنٹے میں نیند پوری تو نہیں ہوئی لیکن تکاٹوٹ ختم ہو گئی تھی۔ اسی دوران چائے بھی آن لائن سروس سے آگئی۔ چائے دیکھ کر دل کو بہت خوشی ہوئی ۔ چائے ویسے بھی میرے کمزوری تھی۔ اور سونے سے جاگنے کے بعد چائے تو لازمی بنتی تھی ۔سارہ واقعی میرا بہت خیال رکھ رہی تھی اور اس وقت آفس سے باہر ہو کر بھی ہماری تمام ایکیٹیویٹی سے باخبر تھی۔
بیویوں والی تمام خوبیاں اسکے اندر موجود تھی۔ لیکن میری ہوتی تو زندگی جنت بن جاتی۔ لیکن ٹھنڈی آہ بھر کر کام میں دوبارہ مشغول ہوگیا۔ گامے نے روبوٹس کے تمام پارٹس فکس کردئیے تھے۔ اور ان کو رنگ اور پالش کرکے چمکا دیا تھا۔ ایک کی مدر بوڑڈ کٹ بالکل ہی ناکارہ ہوگئی تھی۔ اور دوسرے کا پروسیسر اڑ گیا تھا۔ گامے نے مدر بورڈ اور پروسیسر بدل کر ریم اور نئی ہارڈ لگا لی تھی۔ اور تمام کیبلز بھی جوڑ لئے تھے میں نے جدید روبو روئیڈ آپریٹنگ سسٹم اسمیں انسٹالینگ پر لگا دیا۔ 15 بیس منٹ میں انکا اپریٹنگ سسٹم اپ گریڈ ہوگیا۔ اسکے بعد ان کی مزید سیٹنگ کی ۔ کچھ نئے فنکشن شامل کئے۔ اور انکو ٹیسٹ کرنا شروع کردیا۔ ان کو چلایا۔ ڈانس کروایا۔ فوجیوں کی طرح پریڈ کروائی۔
ڈیفنس فائٹنگ کروائی۔ جس میں چوٹ نہیں پہنچائی جاتی تھی لیکن مد مقابل پر وار اور بچاؤ کیا جاتا تھا۔ اسکے بعد انکی دماغی جانچ پرتال کی کچھ سوالات پوچھے ۔ اسمیں بھی پورے اترے۔ بلاشبہ نیا اپریٹنگ سسٹم کمال کا تھا۔ ٹیسٹ کرنے کے بعد اس میں دنیا بھر کا انسائیکلو پیڈیا، زبانیں ڈانلوڈ کی۔ اب بلا شبہ یہ ایک بہتر روبوٹ بن چکے تھے۔
شام کو سارہ بھی واپس آگئی تھی۔ روبوٹس کی کاردگردگی سے وہ بھی بہت خوش تھی۔ روبوٹس کی ٹیسٹینگ کے لئے 12 سے 24 گھنٹے روبوٹس کو ہم اپنے پاس رکھتے ہیں۔ لیکن سارہ کی یہ پہلی کنسائیمنٹ تھی۔ اور ا ن کو وہ بے صبری سے اب اسے کسٹمرز کو بھیجنے کی تیاری کر رہی تھی۔ میں نے کہا بھی ۔ کہ پہلے اسے مزید انڈر ٹیسٹ رکھتے ہیں۔ لیکن سارہ نے کہا کہ مجھے تماری صلاحیتوں پر پورا بھروسہ ہے۔ اور روبوٹس کسٹمر کو بھجوا دئیے۔
تھوڑی دیر بعد وہ چپکے سے اپنی عینک میں لگی چھوٹی سی سکرین پر اپنا اکاؤنٹ چیک کررہی تھی ۔اور مسکرا رہی تھی۔ اسکے بعد اپنے پاپا کو کو کال ملائی۔
پاپا کیسے ہیں۔۔۔۔ پاپا میں آج بہت خوش ہوں۔۔۔۔۔ مجھے آج میری زندگی کی پہلی کمائی ملی ہے۔ اب میں اپنے خوابوں کو خود سے پورا کروں گی۔ ہاں وہ پاکستانی ہے۔ اور بہت اچھا روبوٹس ٹیکنیشن ہے۔ ہاں میں آپ سے کل ملواؤں گی۔ سی یو پاپا ۔لو یو بائے۔۔۔۔۔
سارہ کی خوشی کو میں جانتا تھا۔ ایسی خوشی مجھے بھی ہوئی تھی ۔ جب میں نے خود سے پہلی بار پیسے کمائے تھے۔اور اپنے دوستوں کو گھر والوں کو وہ پیسے دکھا کر خوش ہوتا تھا۔ لیکن سارہ کی خوشی میں شاید ضد بھی تھی۔ پختہ ارادے تھے اور مستقبل کے خواب بھی تھے۔ اور میری وہ اس عزت اسلئے کرتی تھی۔ کہ میں اسکے مما کے ملک سے تھا۔ ورنہ امریکہ میں پاکستانیوں کی کوئی زیادہ عزت نہیں تھی۔
میں انہیں سوچوں میں گم تھا۔ کہ سارہ نے کہا ۔چلیں۔۔ میں کنفیوز سا ہوگیا۔ بولا کہاں۔۔
آپ بھول گئے۔ آپ سے وعدہ کیا تھا۔ کافی کا۔۔۔ اور آج ویسے بھی میں بہت خوش ہوں ۔ آج میری طرف سے سپیشل ٹریٹ۔۔
ٹریٹ کا سن کر میں بھی خوش ہوگیا۔ سوچ رہا تھا۔ سارہ آج بہت خوش ہے۔ آئی لو یو بول ہی دوں۔ لیکن تھپڑ کے ڈر سے اور اور جاب کے جانے کے ڈر سے چپ کرگیا۔۔ اور جو رہی سہی عزت تھی وہ بھی چلی جانی تھی۔۔
اس وقت جیری کی منحوس آواز نہ جانے کہاں سے گونج اٹھی۔ ہیلو جان من۔۔ کیسی ہو ۔
جیری کی آواز سن کر میرا دل بھی دھک سے ایک بار اچھل پڑا۔ یہ نامراد پھر ٹپک پڑا۔
ہائے جیری میں ٹھیک ہوں اور بہت خوش بھی ۔ تمھیں ہی کال کرنے والی تھی۔ کافی پینے چلتے ہیں۔ آج میری طرف سے سپیشل ٹریٹ۔۔۔
اوہ ۔واو۔۔ پھر تو میں ابھی پہنچا سمندر کے شہر وہی ریسٹورنٹ وہی ٹیبل ، میں تمھارا انتظار کروں گا۔
ہاں ٹھیک ہے سی یو ۔۔۔
جیری کے بارے میں سن کر کہ وہ بھی آئے گا۔ دل کافی پینے سے بیزار ہوگیا۔ لیکن سارہ کو انکار بھی نہیں کر سکتا ہے۔ اتنے پیار سے اس نے کافی کی آفر کی تھی۔ اور اتنے پیار سے وہ مجھے مشتری سیارے پر جانے کو کہتی تو میں وہاں بھی پہنچ جاتا۔۔
ریسٹورنٹ میں جیری بظاہر خوش شکل اور ورزشی جسم والا انسان تھا ۔ لیکن شکل سے مجھے وہ بالکل ہی اچھا نہیں لگا تھا۔ آنکھوں میں اسکے مجھے ایک خاص خباثت نطر آئی جو مجھے وراثتی لگی۔ پتہ نہیں سارہ نے اس لنگور میں کیا دیکھ لیا تھا۔امیر باپ کا بیٹا تھا۔ اور روبوٹ کی فیکٹری کا اکلوتا وارث، اسکا ٹرمینٹر روبوٹ بھی ساتھ میں موجود تھا ۔مجھے دیکھ کر اسکے ماتھے پر بھی بل پڑ گئے۔ لیکن پھر سارہ کو دیکھ کر وہ اپنی ٹیبل سے اٹھا۔ اوراسے گلے لگا لیا۔ امریکی کلچر میں یہ عام سی بات تھی۔ لیکن میرے تن بدن میں آگ سی لگ گئی۔۔بہت ہی مشکل سے خود پر قابو کیا۔۔
سارہ سے ملنے کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہوا۔ چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ ۔ مجھے پتہ تھا کہ وہ میرے آنے سے خوش نہیں ہوا ۔ لیکن کمال کا ایکٹر تھا۔
ویلکم ینگ مین۔ شکل سے آپ انڈین لگتے ہیں۔ اور ہاتھ ملانے کے لئے آگے بڑھایا۔ نو آئی ایم پا کستانی۔۔۔۔اور میں نے بھی ہاتھ آگے بڑھایا۔
پاکستانی۔ ۔۔۔ ماتھے پر اس کے او ر بھی بل پڑھ گئے۔ اور ہاتھ ملانے کے لئے اس نے جو ہاتھ آگے بڑھایا تھا۔ کمال مہارت سے پیچھے کرکے اپنی گدی سہلانے لگا۔
او ر میں نے شرمندگی سے ہاتھ پیچھے کرلیا۔ غصہ بہت آیا دل میں کہا کہ بیٹا دیکھ لو ں گا تمھیں بھی ایک دن۔۔
سارہ اس وقت ٹیبل کی طرف بڑھ گئی تھی۔ اسلئے اس نے نوٹس نہیں لیا۔میں بھی ایک سائیڈ پر ٹیبل کے پاس ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔
از قلم: مراد خان

اپنا تبصرہ بھیجیں