ٹیکنالوجی 2035 قسط 6

روبوٹ فیکٹری کی طرف ہماری فلائینگ کار رواں دواں تھی۔ سارہ نے کہا کہ انکل ٹام تو آ ج کل مریح پر ایک پروجیکٹ میں مصروف ہیں۔ مجھے جیری سے بار کرنی پڑے گی۔ اور جیری کو وائیس کال ملا دی۔
ہیلو ۔۔میری جان۔۔۔۔۔۔۔دوسری طرف سے آواز آئی اور میرا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔
کیسی ہو ۔۔ کیسے یاد کیا۔۔آج کافی کا موڈ ہے۔کب فری ہو رہی ہو۔۔۔
میرے دل کی دھڑکن اس وقت بے ترتیب ہو رہی تھی۔ جسے گامے نے محسوس کرلیا اور بیک ویو مرر سے مجھے دیکھ کر ہلکے سے کان میں سرسرایا ۔سر کنٹرول کریں۔ اور میں بس بیچارگی سے اسے دیکھ کر رہ گیا۔۔
کافی تو کل پئیں گے۔۔ آ ج میں تمھاری فیکٹری آرہی ہوں سوچا اطلاع کردوں۔ سارہ نے جواب دیا۔
اوہ مطلب تم نے فری لانسر ہائر کرلیا ۔۔ لیکن میں تو ابھی اس وقت دوبئی میں ہوں ایک پروجیکٹ کے سلسلے میں۔ ویل میں فون کردوں گا ۔ تمھیں پارٹس مل جائیں گے،
لیکن سارہ وہ فیکٹری بھی تمھاری ہی ہے۔پھر کیوں اپنا کام الگ سے کر رہی ہوں۔
تھینکس جیری۔۔۔ انکل ٹام نے اور تم نے جو لچھ میرے لئے کیا ہے۔میرے لئے وہی کافی ہے۔ میں اپنے پاؤں پرخود کھڑی ہونا چاہتی ہو۔
اوکے جیسے تمھاری مرضی۔ ۔۔ بیسٹ آف لک۔ سی یو۔۔کل ملتے ہیں۔۔ جیری کی آواز آئی اور کال منتقطع کر دی۔
یہ ٹام اینڈ جیری تمھارے رشتے دار ہیں؟ میں بولا۔
ٹام اینڈجیری۔۔ وہ دہرائی ۔۔تھوڑی دیر تو گومگو کیفیت میں رہی جیسے میری بات کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہو اور پھر میرے بولنے کے انداز کو وہ سمجھ گئی۔ اوراس کا ہنسی کا فوارہ چھوٹ پڑا۔۔ہنستے ہنستے وہ بولی اوہ مائی گاڈ۔۔۔ بہت فنی ہو تم۔۔کیا یاد دلا دیا۔ میرے بچپن کاپسندیدہ کارٹون تھا۔۔۔آج تک ہم نے انکل ٹام اور جیری کا نام ایسے نہیں لیا تھا۔۔۔ اور نہ ہی سوچا تھا۔
ویل انکل ٹام واٹسن میرے چچا ہیں۔اور جیری واٹسن انکے بیٹے مطلب میرے کزن اور ہونے والے منگیتر ہیں۔۔ انکل ٹام کی مریح سے واپسی پر ہماری منگنی ہوجائے گی۔۔
منگنی کا سن کر میرے اندر سے درد کی ٹھیس ابھری ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے دل ٹوٹ گیا تھا بہت دکھ ہو رہا تھا یہ سب سن کر،شاید سارہ میرے نصیب میں نہیں تھی۔بہت سے خواب دل میں سجا لئے تھے۔ اور وہ خواب، خواب ہی بن کر رہ گئے۔
سارہ ہنس رہی تھی۔ اور دونوں روبوٹ بھی ساتھ میں مسکرا رہے تھے۔ سارہ کے موتیوں سے جیسے دانت ہنسی کی وجہ سے چمک رہے تھے اور آنکھوں میں چمک سی پیدا ہو گئی تھی۔ چہرہ اور بھی حسین ہو گیا تھا،
لیکن میں اندر سے ٹوٹا ہوا تھا۔ اور غمگین ہوگیا تھا۔سوچ رہاتھا جلدی سے یہ پروجیکٹ مکمل کرلوں ۔ اور واپس پاکستان چلا جاؤں۔۔
اسی وقت کانوں کے آئر پیس میں آواز آئی۔ اللہ کی ذات پر بھروسہ رکھیں سر ۔۔تقدیر اگر آپ کو یہاں تک لائی ہے۔ تو ہو سکتا ہے ، آپ سےکوئی کام لینا چاھے۔۔
میں حیرت سے اچھل گیا۔۔ مولوی۔۔۔ تم ہو۔۔۔ میں تو تمھیں بھول ہی گیا تھا۔
ہاں سر میں مولوی روبوٹ ہی ہوں۔آپ کے ساتھ کنیکٹ ہی رہا ہوں۔ لیکن آپ سفر میں ہیں اسلئے تنگ نہیں کیا۔۔۔
سارہ بھی میرے طرف متوجہ ہوئی۔ میں نےکہا میرا پرسنل روبوٹ ہے،۔اس سے بار کر رہا ہوں۔۔ سارہ نے اوکے کہا اور اور سر ہلا کر باہر دیکھنے لگی۔۔۔
اسی وقت ہم روبوٹ فیکٹری پہنچ گئے۔ میں نے بھی دل میں ارادہ کرلیا ، کہ ان دونوں ٹام اینڈ جیری کو سبق نہ سکھایا تو مراد نام نہیں۔۔۔۔
روبوٹ فیکٹری ایک جدید لیبارٹری اور ورکشاپ تھی۔ جہاں مختلف قسموں کے جدید روبوٹ، اسکے پارٹس تیار ہوتے ہیں۔جن کو روبوٹ مشینوں کی مدد سے بنایا جاتا تھا۔ فیکٹری میں سارہ مجھے لیکر سیل ڈیپارٹمنٹ میں لے گئی۔ مینجر سارہ کو اچھی طرح سے جانتا تھا۔ اسلئے ہمارا پرتقدم استقبال کیا۔ جیری کی طرح مینجر نے بھی پارٹس مفت میں ہی دینے کی پیشکش کی لیکن سارہ نے انکار کردیا۔ سارہ سے میں نے فیکٹری کا وزٹ کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ سارہ نے مینجر کو دیکھا اور مینجر نے اپنے ایک ماتحت روبوٹ کو میرے ساتھ کر دیا۔
روبوٹ سب سے پہلے ہمیں پہلے سیکشن لے گیا۔ جہاں چھوٹے چھوٹے مختلف مزید ڈیپارٹمنٹ تھے۔ اور اس میں مختلف روبوٹس کے مختلف پارٹس تیار ہو رہے تھے۔ میں ساتھ ساتھ اپنے لئے مطلوبہ پارٹس کی لسٹ کے لئے منتخب پارٹس کی تصاویر اور انکے ماڈل نمبر بھی لکھتا گیا۔ اگلے ڈیپارٹمنٹ میں انہی پارٹس کو جوڑ کر مختلف قسم کے روبوٹس بنائے جا رہے تھے۔ ان میں گھریلو روبوٹس جو زیادہ تر گھر کے کام کاج کرتے تھے۔ کچھ آفس ورکنگ کے لئے تھے۔ اس کے بعد ٹرمینیٹر روبوٹ تھے۔ ان روبوٹس کو دیکھ کر میں نے ٹھنڈی آہ بھری۔ گامے کو دیکھا تو وہ بھی حسرت بھری نگاہوں سے ان روبوٹس کو دیکھے جا رہا تھا۔ میں نے کہا صبر کر گامے ایک دن تمھیں بھی انشاء اللہ سچ مچ کا ٹرمینیٹر بناؤں گا۔ ٹرمینٹر روبوٹ ایسے روبوٹ تھے۔ جو ہر مشکل وقت میں ساتھ دیتے تھے یہ ایک طرح سے باڈی بلڈر روبوٹ تھے۔۔ ایڈونچر پسند لوگ ان روبوٹس کو بہت پسند کرتے تھے۔ اسکے علاوہ یہ لڑائی بھرائی میں بھی ماہر تھے ۔ اور کئی قسم کا اسلحہ بھی چلا سکتے تھے۔ اسلئے اکثر ان کو باڈی گارڈ کے طور پر بھی رکھا جاتا تھا۔انہی کی ایک قسم ٹرانسفارمر روبوٹ بھی تھے۔ جو بوقت ضرورت خود کو کسی بھی دوسری مشین میں ڈھال سکتے تھے۔خود کو فلائینگ بائیک یا فلائینگ کار، میں بدل لینا انکی عام خصوصیت تھی۔کچھ روبوٹس ٹرمینیٹر اور ٹرانسفارمر روبوٹ دونوں خصوصیت کے حا مل تھے۔
اگلے سیکشن میں ہمیں جانے نہیں دیا۔ میں نے شیشے سے جھانک کر دیکھا تو یہاں کی دنیا ہی الگ تھی۔ اس سیکشن میں ملٹری روبوٹ تیار ہو رہے تھی ۔ وہ روبوٹ کئی من وزنی فولادی اور جدید ہتھیار سے لیس تھے۔جن کے چہروں سے بے رحمی اور سنگد لی ٹپک رہی تھی۔ انکو دیکھ کر واقعی خوف آتا تھا۔ ان روبوٹس کو رحم کر شاید سکھایا ہی نہیں جاتا تھا۔ اس وقت کئی ممالک میں باقاعدہ اسکی پوری بٹالین موجود تھے۔ جو جنگوں کے موقعوں پر سب سے آگے رہتی تھی ۔ اور ہر چیز کو تہس نہس کر دیتی تھی
ان روبوٹس کے حوالے سے عالمی سحہ پر بہت سے خدشات تھے۔ جن کو سوچ کر ہی میرے جسم میں سنسنی دوڑ گئی۔ اور میں واپس ہولیا۔
مینجر کو میں نے لسٹ اور اسکے ماڈل نمبر دئیے ۔ جو تھوڑی ہی دیر میں اسکا ماتحت روبوٹ لے آیا۔ اور ہم واپس سارہ کے آفس آگئے۔،
جاری ہے۔۔
از قلم: مراد خان

اپنا تبصرہ بھیجیں