ٹیکنالوجی 2035 قسط 5

لوس اینجلس میں اس وقت صبح کا وقت تھا۔ لوگ معمول کے مطابق فلائینگ کاروں میں اپنی منزلوں کی طرف رواں دواں تھا۔ امریکہ کے دوسرے شہروں کی طرح ٹیکنالوجی نے یہاں بھی اپنے پنجے گاڑے ہوئے تھے۔ لوس اینجلس پہاڑ ، جنگل، اور سمندرکا حسین امتزاج تھا۔ اور خاص کر سمندر میں موجود چھوٹا سا نیا شہر ، جو کچھ سال پہلے زیر سمندر تعمیر کیا گیا تھا۔ اور اسمیں مختلف ہوٹل، ریسٹورنٹ ، پارک ، گیمز سینٹراور سائنس لیبارٹریز موجود تھی۔ اور اس شہر کی خاص بات ، کہ اسے ہرصرف سے شیشے کی موٹی دیوار نے گھیرا ہوا تھا۔ آپ کو اپنے چاروں طرف سمندری حیات ، مچھلیاں، اور شارکس گھومتے پھرتے نظر آتے تھے۔رات کو آسمان کی طرف دیکھتے تو ستاروں کی جگہ آپ کو رنگ برنگی مچھلیاں ٹمٹماٹی نظر آتی ، اور ایسا مسحورکن منظر ہوتا کہ آپ کا دل کرتا تھا کہ بس انہی نظاروں میں کھو جائیں۔
خیر سمندری بستی کی طرف تو بعد میں جانے کا پروگرام تھا۔ پہلے ذرا سارہ سے تو ملاقات ہو جاتی۔ جیسے جیسے منزل قریب آرہی تھی دل کی دھڑکن ہلکی ہلکی تیز ہو گئی تھی۔ جسے گامے نے محسوس کرلیا۔ لیکن وہ میری اس کیفیت کا عادی ہو گیا تھا۔ اسلئے کچھ نہیں بولا۔ چند ہی لمحوں میں ہماری فلائینگ کار ایک بلڈنگ پر موجود ائر پارکنگ پر اتر گئی۔ سارہ کا ڈرائیور روبوٹ ہمیں اپنے ہمراہ سارہ کے آفس لے گیا۔
سار ہ آفس میں ہمارا ہی انتظار کر رہی تھی۔ آفس میں داخل ہوتے ہی دل کی دھڑکن جیسے رک سی گئی ہو۔سانسیں جیسے ،میں لینا ہی بھول گیا۔ سارہ کو سکائپ پر تو دیکھا تھا۔ اور اسکی خوبصورتی کا میں قائل بھی تھا۔ لیکن اس وقت تو وہ بالکل ہی پرستان کی پری لگ رہی تھی۔ سرخ و سپید چہرہ ، غزالی آنکھیں ، جس میں مشرقیت کا عنصر جھلک رہا تھا۔ ہلکے براؤن کلر بال جو شانوں تک خوبصورتی سے تراشے ہوئے تھے۔ میں اسکے بالوں کی خوبصورتی میں کھو گیا۔ جو کھڑکی کی طرف سے آنے والی ہوا کی وجہ سے اسکے چہرے سے آٹکھیلیاں کر رہی تھی میرے لئے تو وقت جیسے رک گیا تھا۔ اور پھر سارہ کی آواز نے مجھے اس مدہوشی سی باہر نکال دیا،
ویلم مسٹر مراد ۔ ٹو- لوس اینجلس
شکریہ مس سارہ۔۔۔۔
ویل آپ چائے پئیں گے، یا کافی۔۔ یا ویٹ میں آپکے لئے پاکستانی ناشتے کا آڈر کروادیتی ہوں۔۔
میں نے ہلکے سے سر ہلا دیا۔ ویسے میرے حساب سے اس وقت میرا ڈنر بنتا تھا۔ لیکن سوچا فی الحال گذارا کر لوں گا۔
سارہ نے اپنے روبوٹ کو ناشتے کا بتا دیا اور بولی۔ آپ کافی تھک گئے ہوں گے۔ ناشتے کے بعد آپ آرام کرنا چاھیں تو کر سکتے ہیں۔
نہیں مس سارہ ۔۔ میں ایزی ہوں۔ اور کام کے لئے تیار ہوں۔
اوکے گڈ۔۔ میرے پاس اس وقت میرے کلائینٹس کے چھ روبوٹس ہیں۔ تین چار سال پرانے ہیں۔ اور اکثر کے کچھ پارٹس بھی ٹوٹے ہیں۔ اور کچھ پارٹس کام کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ اسکے علاوہ ان کا آپریٹنگ سسٹم بھی بہت اولڈ ہے۔مجھے امید ہے کہ تم اسے اچھے سے کرلو گے۔
میں کہا فکر کی ضرورت نہیں۔ میرا پانچ سال کا تجربہ ہےروبوٹس کو ٹھیک کرنے کا۔ اور واقعی میرا روبوٹس کو ٹھیک کرنے کا پانچ سالہ تجربہ تھا۔ دو سال سے میں لاہور کے ہال روڈ میں ایک دوکان پر روبوٹس کو مرمت کرتے آیا تھا۔ اور اسکے بعد تین سال پہلے اپنا آفس کھول لیا تھا۔ روبوٹس کا سکریپ اور پرانے پرزے باہر سے کنٹینر میں آتے تھے۔ اور لنڈے کے کپڑے اور کمپیوٹر کے سکریپ کی طرح یہ روبوٹس بھی استعمال شدہ ہوتے تھے۔ اور زیادہ تر اس میں ایکسپائر تھے۔اور ہم پاکستانی اسکے پرزوں کو جوڑ کر اس پر رنگ وغیرہ کرکے اور اسمیں نیا آپریٹنگ سسٹم انسٹال کرکے بالکل نیا روبؤٹ بنا دیتے تھے۔ اور اسے دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے کہ نیا نیا امریکہ سے امپورٹ ہوا ہے۔
اوکے ۔ویسے تو یہاں امریکہ میں بھی کافی ایکسپرٹس ہیں۔ جو روبوٹس کو ٹھیک کر دیتے ہیں۔ لیکن ایک تو انکے چارجز بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ سیکنڈ میری مما پاکستانی تھی۔ آپکی فری لانسنگ سائٹ پر ایڈ دیکھ کر اور آپکی پروفائل پر پاکستانی فلیگ دیکھ کر دل کو کچھ اپنا اپنا سا محسوس ہونے لگا تھا۔ پاکستان سے مما کی وجہ سے دلی لگاؤ ہے۔ اسلئے سوچا کہ میں اپنے اس بزنس کے لئے سب سے پہلے کسی پاکستانی کو ہی ہائر کروں۔
ہاں آپکی آنکھوں سے مجھے ایسا لگ رہا تھا۔ کہ آپ کا مشرق سے کوئی نہ کوئی تعلق ہے۔اور یہ جان کر بھی بہت خوشی ہوئی۔ کہ آپ کی مما پاکستان سےہیں۔ ویسے میرا دل کر رہا ہے۔ کہ آپ کی مما سے بھی ملوں۔کیا میں ان سے مل سکتا ہوں۔ اس وقت میں سوچ رہا تھا۔ کہ کیا پتہ سارہ کی ممی مجھ سے مل لیں اور مجھ جیسے ایک شریف پاکستانی لڑکے کو دیکھ کر انکے دل میں اپنی بیٹی کو میرے ساتھ بیاہنے کے کچھ جذبات ہی پیدا ہوجائیں۔مجھے لگ رہا تھا۔ کہ سارہ کیلئے اپنے دلی جذبات میں ، میں کچھ زیادہ ہی آگے نکل گیا تھا۔
بہت دیر ہوگئی ۔۔۔ ۔اب آپ میری مما سے نہیں مل پائیں گے۔۔۔ یہ کہہ کر وہ افسردہ ہوگئی۔ اور سر جھکا لیا اسکی خوبصورت آنکھوں میں مجھے ہلکی ہلکی نمی نظر آئی۔ اور چند لمحوں تک وہ خاموش بیٹھی رہی۔ مجھے لگ رہا تھا۔ کہ شاید میں نے کچھ غلط کہہ دیا تھا۔ یا اس نے میرے سوچوں کو پڑھ لیا ہے۔
میں نے کہا سوری اگر آپ کو کچھ برا لگا ہو۔
نو ۔۔ اٹس وکے۔۔ اصل میں مما اب اس دنیا میں نہیں رہی ہے۔ وہ فوت ہو گئی ہے۔ میرے مما اور پاپا کا ایکسیڈینٹ ہوا تھا۔ مما تو اس دنیا میں نہیں رہی ہے۔ لیکن پاپا بھی بس جی ہی رہے ہیں۔ انکا سارا جسم ڈیمج ہے۔ انکا جسم کا کوئی حصہ بھی کام نہیں کرتا ، صرف دماغ ہی کام کرتا ہے۔ اور وہ اپنے دماغ کے سہارے ہی جی رہے ہیں۔ کہتے ہیں تو کہ سائنس نے بہت ترقی کرلی ہے۔ لیکن ڈاکٹر ابھی تک انکو ٹھیک نہیں کرسکے۔ انہیں اب ایک روبوٹ سوٹ پہنایا ہوا ہے۔ جس کے سہارے وہ تھوڑا بہت چل لیتے ہیں۔
بہت افسوس ہوا یہ سن کر۔ اور میں نے بھی سر جھکا لیا۔
اسی وقت ایک آن لائن خوراک کی ترسیل کرنے والوں کا روبوٹ آگیا۔ اور ناشتہ کھانے کی ٹیبل پر رکھ کر چلا گیا۔
خیر زندگی میں یہ سب کچھ چلتا ہے۔ آپ ناشتہ کرلیں۔ مجھے جانتی ہوں اس وقت آپ کا ڈنر ٹائم ہے۔ لیکن آپ کو یہ کافی ہوگا۔اور مجھے کھانے کی ٹیبل کی طرف اشارہ کردیا۔
میں سعادت مندی سے کھانے کی ٹیبل پر آگیا۔ ناشتہ کو دیکھا تو دل خوش ہوگیا۔ حلوہ پوری، چنے ، کلچے ،پائے اور چار تہوں والے پراٹھے۔ اور گرم گرم چائے۔ ایسا ناشتہ تو مجھے مہینے ایک دو بار ہی نصیب ہوتا تھا۔ میں تو ناشتہ پر ٹوٹ پڑا۔ ناشتہ بہت ہی مزے دار تھا۔ مجھے اندرون لاہور کا ناشتہ یاد آگیا۔ وہی ذائقہ وہی مزا۔ میں نے ڈٹ کر کھایا۔ اور آخر میں گرم گرم چائے پی۔ جو تھوڑی بہت سفر کی سستی تھی وہ بھی اتر گئی۔
ناشتہ کے بعد یاد آیا ۔ کہ سارا ناشتہ تو میں ہڑپ کر گیا۔ سارہ کو تو صلح ہی نہیں ماری۔ میں نے پوچھا آپ نے ناشتہ نہیں کیا۔وہ بولی ۔ناشتہ میں بہت صبح کرتی ہوں۔
میں نے کہا پھر ٹھیک ہے۔ ۔۔اچھا ۔ مجھے اب روبوٹس چیک کرواد ئیں میں انکا معائینہ کرلیتا ہوں۔
سارہ مجھے لیکر اپنی روبوٹس لیب میں لے گئی۔ یہاں پر تقریبا چھ روبوٹس تھے۔ اس میں تو کچھ کی حالت بہت ہی بری تھی۔ ایک جگہ الگ سے ایک روبوٹس کے بہت ہی پرانے شاید دس سال سے بھی زیادہ پرانے پارٹس پڑے ہوئے تھے۔ اسکا کوئی بھی حصہ جڑا ہو نہیں تھا۔ شکل سے کوئی زنانہ روبوٹ لگ رہی تھی۔
میرے استفسار پر سارہ نے بتایا۔ کہ یہ میرے “آیا روبوٹ” تھی بچپن میں پاپا نے اسے خرید کر دیا۔ پیار سے میں اسے آنٹی روز کہا کرتی تھی۔اور اس سے کافی انس ہو گیا تھا۔ یہ میرے ساتھ کھیلتی تھی ۔ مجھے سکھاتی تھی۔ پڑھاتی تھی۔اور میرا خیال رکھتی تھی۔ اس وقت روبوٹس نئے نئے گھروں میں آئے تھے۔ یہ زیادہ ایڈوانس نہیں تھے۔ زیاد ہ تر یہ بچوں کے کھیلنے کے لئے یا چھوٹے موٹے کام کے لئے استعمال کئے جاتے تھے۔ پھر یہ ایکسپائر ہوگئے۔ نئے ایڈوانس روبوٹس آگئے۔ اب تو کوئی اسے مرمت بھی نہیں کرتا۔ اسلئے یہاں بیکار رکھا ہوا ہے۔ پاپا اسکے کباڑ کو پھینکنا چاھتے تھے۔ لیکن میں نے منع کردیا۔
میں نے روبوٹ کو چیک کیا تو تو یہ واقعی مرمت کے قابل نہیں تھا۔ اور اب تو ہال روڈ میں بھی ایسے روبوٹ کو کوئی مرمت نہیں کرتا تھا۔ اسکا کباڑ سیدھا کباڑیے کے پاس جاتا ۔اور کباڑیا بھی ناک بھوں چڑھا کر اسکا سکریپ سستے میں لیتا۔
خیر میں نے اور گامے نے باقی روبوٹس کو چیک کیا۔ روبوٹس کے جو جو پارٹس کی ضرورت تھی ۔ اسکی لسٹ بنائی اور کچھ دوسری ضروری چیزوں کو نوٹ کیا۔ اور سارہ سے یہاں کی روبوٹ مارکیٹ کے بارے میں پوچھا۔ سارہ نے کہا مارکیٹ سے ہمیں پارٹس کچھ مہنگے ملیں گے۔ میرے انکل کی روبوٹ فیکٹری ہے۔وہاں سے ہمیں سستے مل جائیں گے۔ میں نے کہا چلو پھر ٹھیک ہے۔فیکٹری ہی چلتے ہیں۔
اور کچھ لمحوں کے بعد میں سارہ کے ساتھ فلائینگ کار میں لوس اینجلس کے ہوائی روڈ پر تھا۔ دونوں روبوٹس آگے اور میں اور سارہ پچھلی سیٹ پر۔۔ ایک انجانی سی خوشی دل و دماغ میں تھی۔ آج سارہ جو ساتھ تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
از قلم: مراد خان

اپنا تبصرہ بھیجیں