ٹیکنالوجی 2035 قسط 4
صبح حسب معمول مولوی روبوٹ نے نماز کے لئے اٹھایا۔ نماز کے بعد خیال آیا کہ بہت بڑی غلطی ہوگئی ہے۔ لاس اینجلس اور پاکستان کے ٹائم میں 12 گھنٹے کا فرق ہے۔ اور میں اپنے پاکستان کے معمول کے مطابق چل رہا تھا۔ پاکستان میں اس وقت صبح تھی۔ اور لاس اینجلس میں شام ہو رہی تھی۔ میں نے سارہ کو فون کرکے سچویشن سے آگاہ کیا ۔ وہ بھی اس ٹائمنگ کے حوالے سے کنفیوز تھی۔ میں نے بتایا کہ میں آپکی طرف کل صبح پہنچ جاؤں گا۔ گامے کو فون کیا کہ اگر ٹکٹ کی ٹائمنگ بڑھ سکتی ہے۔ تو 12 بجے والی ٹرین میں ٹکٹ کٹوا لو۔ کچھ ایکسٹرا چارجز کے ساتھ یہ کام بھی ہوگیا۔ تب تک میں نے آفس میں جاکر کچھ ضروری کام وغیرہ ختم کرنے کا سوچا۔ کچھ لوکل کلائنٹس کا کام مکمل کیا اور وہاں سے تمام 11 بجے فارغ ہوکر لاہور کے سپر سونک ریلوے اسٹیشن آ پہنچا۔ پرانا ریلوے اسٹیشن کب کا آثار قدیمہ بن چکا تھا۔ اور یہ نیا اور جدید ریلوے اسٹیشن بن گیا تھا۔ جس کی بلٹ ٹرین اور سپر سونک ٹرین 1500 سے 2500 ہزار کلومیٹر فی گھٹہ کی رفتار سے چلتی تھی۔ جس ورلڈ سپر سونک ٹرین سے میں جا رہا تھا۔ یہ جیٹ فیول سے چلتی تھی اور اسکی سپیڈ 2300 کلومیٹر فی گھٹہ تھی۔ اور یہ ٹرین جاپان سے چائینہ ، انڈیا ، پاکستان ، ایران، عراق ، ترکی فرانس، لندن، آئر لینڈ سے ہوتی ہوئی بحیرہ اوقنیانوس میں زیر سمندر 3500 کلومیٹر کا فاصلہ ٹرازنٹ لینٹک ٹیونل سے طے کرتی ہوئی امریکہ پہنچ جاتی تھی۔ اسکے دو روٹ اور تھے۔ ایک روٹ روس، کینیڈا ، اور امریکہ تک گیا تھا۔ اور دوسرا روٹ اسٹریلیا ، انڈیا، دبئی ،مراکش مصر اور افریقہ تک پہنچا ہوا تھا۔ ۔ اسلئے اسکی
بارہ بجے سپر سونک ریلوے پلیٹ فارم پر پہنچ گئی۔ اور ہم اس میں بیٹھ گئے۔ امیگریشن کے پروسس سے ہم پہلے ہی نمٹ چکے تھے۔گاڑی یہاں صرف 10 منٹ رکتی تھی ۔ مولوی روبوٹ کو میں گھر میں ہی چھوڑ آیا تھا۔ کیونکہ ایک سے زیادہ روبوٹ لے جانےکی اجازت نہیں تھی۔ لیکن یہاں بھی اس نےخود کو میری سمارٹ واچ سے منسلک کردیا تھا۔ مطلب میری جان نہ چھوڑنے کا پکا ارادہ کر لیاتھا۔
سپر سونک ریل میں ویسے تو میں اندرون پاکستان کافی بار گیا تھا۔ لیکن ملک سے باہر اس میں جانے کا پہلا تجربہ تھا۔ زیادہ تر میں لوکل کلائنٹس کے ساتھ کام کرتا تھا۔ باہر کا بھی کوئی نہ کوئی آڈر آجاتا تھا۔ لیکن وہ انٹرنیٹ کی مدد سے آن لائن میں حل کروا دیا کرتا تھا۔ اس بار پروجیکٹ کچھ بڑا تھا۔ اور مجھے امید تھی ۔ کہ وہیں پر مزید بھی آڈر ملیں گے۔ اور میرا مریخ پر جانے کا خواب بھی اسے سے پورا ہوجائے گا۔
دس منٹ بعد ریل چلنی شروع ہوگئی۔ پہلے اسکی سپیڈ کم تھی ۔ اور اسکے بعد یہ ہواؤں سے باتیں کرنے لگی۔ اسکی سپیڈ اتنی تیز تھی۔ کہ قریب کی چیز تو بالکل ہی نظر نہیں آرہی تھی۔ ہاں دور کی چیزیں پلک جھپکنے میں سامنے آتی اور نظروں سے اوجل ہو جاتی۔ کھڑکی کے ساتھ ایک سکرین تھی جس میں سلو موشن فیڈ کیا گیا تھا۔ اور آپ راستے میں آتی ہوئی چیزوں کو اپنی مرضی سے آرام سے دیکھ سکتے تھے۔ اور اگر اس پر مزید ریسرچ کرنا چاھتے تو آپ اس پر مزید معلومات بھی دیکھ سکتے تھے۔
سپیڈ تیز ہونے پر گامے نے دل پر ہاتھ رکھ لیا۔ یار مجھے تو ڈر لگ رہا ہے۔ میں نے کہا روبوٹ ہو کر انسانوں والی حرکتیں نہ کرو، تمھار ا کونسا دل ہے جو دھڑک رہا ہے۔
یار تم نے ہی تو مسخرہ ، مذاقیہ، اور جذباتی موڈ ایکیٹیویٹ کیا ہے۔ سپیڈ تیز ہوتی ہے۔ تو میرا سینسر میرے الیکٹرونک دل کی دھڑکن کو تیز کر دیتا ہے۔ کسی کو غمگین دیکھتا ہوں ۔ تو اسے لطیفہ سنا دیتا ہوں ۔ کوئی شعر سناتا ہے تو داد دیتا ہوں۔ کوئی ہنستا ہے تو میں قہقہے لگا کر اسکے ساتھ شامل ہوجاتا ہوں۔ اب تم ہی کہو۔ دل دھڑکے گا نہیں تو ڈر کیسے پیدا ہوگا۔
دل کی بات کی تو سارہ ایک بار پھر خیالوں میں آگئی۔ ویسے میں کوئی فلرٹ ٹائپ کا لڑکا نہیں ہوں ۔ لیکن خوبصورت چیز کو میں بھی دل سے لائک کرتا ہوں ۔اور سارہ تو ہی ایسی، کہ ہزاروں دلوں کے تاروں کو چھیڑ جائے۔ اسکی آنکھیں ، اسکا چہرہ۔ سکائپ پر تو دیکھا تھا۔ اب سامنے روبرو دیکھنے کی بھی آس تھی۔
اور میں انکھیں بند کر کے تصورات کی دنیا میں پہنچ گیا۔ ابھی تیس منٹ بھی نہیں ہوئے تھے۔ کہ کابل پہنچ گئے اسکے بعد تہران ، پھر بغداد۔ انقرہ ، ۔۔
شہر تھے کہ بہت تیزی سے آ رہے تھے ۔ لیکن دل کر رہا تھا۔ کہ کاش میں جلدی پہنچ جاؤ۔ ۔۔ لیکن ایسا لگ رہا تھا۔ کہ جیسے یہ سپر فاسٹ ریل بھی آج بہت سلو چل رہی ہے۔ تقریبا پانچ گھنٹے بعد ہم برطانیہ کے شہر لندن پہنچ گئے۔ اسکے بعد ائر لینڈ اور پھر وہاں سے ٹیونل زیر سمندر ٹرازنٹ لینٹک ٹیونل سے گذرنے لگا۔
یہ ٹیونل واقعی ایک شاہکار تھا۔ اسکا آئیڈیا ایک مصنف نے 1935 میں اپنے ناول میں دیا تھا۔ اور اب 2030 میں یہ تکمیل کو پہنچ چکا تھا۔ سمندر میں حیرت انگیز اور دل کو چھو لینے والے مناظر تھے۔ میں پوری طرح سے کھڑکی سے لگ کر ان مناظر میں کھو گیا۔ مختلف قسم کی سمندری حیات میرے سامنے سے گذرتی جارہی تھی۔ یہاں ایک نئی دنیا ہی بسی ہوئی تھی۔ پہاڑ ، چٹانیں، وادیاں ، صحرا اور آبی پودوں کے جنگلات جا بجا تھے۔ بڑی بڑی شارکس ، وہیل مچھلیاں آکٹوپس ، جیلی فش، اور چھوٹی مچھلیوں کے غول در غول پھر رہے تھے۔ ایسے مناظر میں نے زندگی میں پہلی بار دیکھے تھے۔ اور قدرت کے یہ حسین مناظر مجھے احساس دلا رہے تھے ، کہ واقعی کوئی ذات ہے جو اسکو چلا رہی ہے۔
ادھر گاما ٹرمینٹر بھی کھڑکی سے لگا ان مناظر کو دیکھ رہا تھا۔ واو۔۔۔ امیزنگ ۔۔۔ ایسی دنیا تو حقیقت میں پہلی بار دیکھی ہے۔
میں بولا یہ مذاق کر رہے ہو ۔ یہ تمھارے سسٹم میں کوئی گڑ بڑ ہوگئی ہے۔ آج بہت بہکی بہکی اور انسانوں جیسی حرکتیں کر رہے ہو،
گاما بولا نہیں ۔ نہیں مذاق تو نہیں کر رہا۔ ہاں رات کو اپنے اوپر کچھ تجربے کئے تھے، کچھ سسٹم اپ گریڈ کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ نیا بی ٹا ورژن آیا ہوا تھا۔ سوچا ٹرائی کرلو۔
میں چونک گیا۔ کیا بی ٹا ورژن ۔ ۔۔ یار کچھ خیال کرو تمھیں پتہ بھی ہے، کہ بی ٹا ورژن میں خامیاں ہوتی ہیں۔ بجائے اسے کسی اور پر تجربہ کرنے کے تم خود پر ٹرائی کر نے لگے۔ تمھیں اگر کچھ ہوگیا ۔ تو پھر میں تمھیں ہی ٹھیک کرتا رہوں گا۔
وہ میں نے سوچا ۔ کہ لاس اینجلس میں کوئی پتہ نہیں ۔مجھ سے بھی جدید اور نئے روبوٹ ہوں گئے۔ اور آپکے پاس میں اکلوتا ہی روبوٹ ہوں۔اور کس پر ٹرائی کرتا۔
مطلب اب تم نے سوچنا بھی شروع کردیا۔ میں غصے سے بولا۔
نہیں مطلب آپ نے آٹو اپ ڈیٹ کو آن رکھا تھا۔ اور میرے سسٹم نے جانچ پرکھ کر مجھے آگاہ کیا تھا ۔کہ تمھاری اپ گریڈنگ ضروری ہے۔اسلئے میں نے او کے کردیا تھا۔ لیکن بے فکر رہیں۔ بیک اپ موجود ہے۔ کچھ بھی ہوا تو مجھے ری سٹور کردینا۔
میں نے طمانیت کی سانس لی۔ اور باہر پھر کھڑکی کی طرف دیکھنا شروع کردیا۔ اگلے ہی لمحوں میں ٹرین سمندر سے خشکی کی طرف آگئی ۔اور ہم براعظم امریکہ کی سر زمین پر پہنچ چکے تھے۔ اور ڈیڑھ گھنٹے بعد ٹرین لاس اینجلس کے اسٹیشن پر پہنچ چکی تھی۔
لاس اینجلس، لاطینی امریکہ کی ریاست کیلوفورنیا کا سب سےبڑا اور نیو یارک کے بعد امریکہ کا دوسرا بڑا شہرتھا ۔۔سائنس، ٹیکنالوجی کا گڑھ،معروف ترین تعلیمی اداروں اور ہولی وڈ سٹوڈیو کی سرزمین تھا۔اور ہاں سارہ کاشہر بھی تھا۔ پتہ نہیں کیوں یہ سارہ دل میں اتر تی جا رہی تھی۔
کچھ ہی دیرمیں ہم ٹرمینل سے باہر تھے۔ باہر نکلتے ہی ایک جدید فلائنگ کار ہمارے سامنے اتری۔ اور اسمیں سے ایک جدید اور باوردی روبوٹ اتر کے ہمارے پاس آیا۔ اور ادب اور شائستگی سے سر جھکا کر بولا۔ مسٹر ارحم۔۔۔
میں بولا۔ یس۔۔ آئی ایم ارحم ۔۔
میں مس سارہ کا ڈرائیور ہوں اور آپ کو لیجانے آیا ہوں۔۔۔۔
میں کہا ضرور ۔ اور میں اور گاما دونوں اس فلائینگ کار میں بیٹھ گئے۔
جاری ہے۔۔۔۔
از قلم: مراد خان