ٹیکنالوجی 2035 قسط 1

ابھی صبح کے پانچ ہی بجے تھے۔ جب کسی فولادی ہاتھ نے ہلکے سے پاؤں کو دبایا۔
سر نماز کا ٹائم ہو گیا ہے۔ نماز کے لئے اٹھ جائیں۔ میں نے کسمسا کر آدھی آنکھیں کھولیں۔ اور اسے گھورا، سونے دو یار،
سر، الصلوات من النوم، نماز نیند سے بہتر ہے۔ اور دوبارہ میرے پاؤں کو ہلکے سے دبایا۔
ٹائم کیا ہوا ہے۔
سر پانچ بج کر 10 منٹ ہوئے ہیں۔ آج 2035 ہے اور سوموار کا دن ہے۔اور آفس میں آپکی اہم میٹنگ بھی ہے۔
میں بستر پر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ دماغ پر ابھی بھی نیند کا اثر تھا۔ اس روبوٹ کو کل ہی لایا تھا اور اپنا سارا بائیوڈیٹا اور بیک اپ اس میں اپلوڈ کر دیا تھا۔
کمپنی کا یہ نیو ماڈل تھا۔ اور اس میں کافی سارے موڈ ایکٹیو تھے۔ ککنگ بھی جانتا تھا، گھر کی سیکیورٹی بھی کر لیتا تھا۔ اور سیکرٹری کے فرائض بھی انجام دے لیتا تھا۔نرسنگ بھی کرلیتا تھا ۔ اور ہاں اس میں مولوی موڈ بھی تھا۔ جو خاص طور پر دیندار طبقہ اسکو ایکیٹیو کرکے رکھتا تھا۔ قرآن پاک کی کوئی بھی سورت ، صحاح ستہ کی کوئی بھی حدیث سیاق وسباق اور تشریع کے ساتھ سنا دیتا تھا۔ کوئی بھی دینی مسلئہ ہوتا وہ مختلف مفتیان کرام کے فتاوی جات اس مسئلہ پر بیان کردیتا۔ خیر فرقہ پرستی کا یہ روبوٹ بھی شکار ہو رہا تھا۔ پہلے صرف بات نماز کے اوقات کی تھی جو مختلف ائما کرام کی مقررہ کردہ وقت کے مطابق آپ کو نماز کے لئے اسے ایڈجسٹ کرنا ہوتا تھا۔لیکن بات جب مسائل کی ہوئی تب اختلافات سامنے آئے، اور صارف اس میں مزید دیوبندی، بریلوی ،شیعہ موڈ کا مطالبہ بھی کر رہے تھے۔،کہ ہمیں صرف خالص دیوبندی، بریلوی یا شیعہ کی کتب اور مسائل کو بیان کرنے والا روبوٹ چاھئے۔کچھ پروگرامرز نے اپنے طور پر باقاعدہ اسکی پروگرامنگ بھی کرلی تھی۔ جو ا انٹرنیٹ سے ڈانلوڈ کرکے روبوٹ میں اپلوڈ کر سکتے تھے۔
میں اسی سوچوں میں گم تھا ۔، کہ روبوٹ بولا۔ سر آپ کو وضو یہیں پر کروادوں ۔ یا واش روم جائیں گے۔لیکن پہلے آپ واش روم چلے جائیں۔ کیونکہ آپ کی سکینگ سے پتہ چل رہا ہے۔ کہ آپ کو پریشر آنے والا ہے۔
اور واقعی اس کی بات درست تھے۔ پیٹ میں ہلکا سا درد ہوا۔ اور میں واش روم بھاگ گیا۔
کموڈ میں بیٹھےبیٹھے مجھے پھر نیند نے آلیا۔ اور آنکھیں بند ہونے لگی۔
باہر سے روبوٹ بولا ۔سر لگ رہا ہے آپکو نیند نے پھر گھیر لیا ہے۔ جماعت میں 15 منٹ رہ گئے ہیں۔ جلدی کریں
دھت تیرے کی۔ پرائیویسی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ جب سے ٹیکنالوجی ترقی کرتی گئی ہے۔ پرائیویسی کا تو سمجھو نام ہی غائب ہو گیا ہے۔ آج سے بیس سال پہلے ہی لوگوں کی لوکیشن ٹریس ہوجاتی تھی۔ جو انٹرنیٹ یا سمارٹ فون استعمال کرتے تھے ۔وقت کے ساتھ ساتھ ایک سپیشل آئی ڈی کارڈ بنا ،جو اس بندے کا شناخت نامہ ہوتا تھا، اوراس میں مائیکرو چپ ہوتی تھی جو کئی جگہ پر استعمال ہوتی تھی او ر بندے کو بھی ٹریس کر لیتی تھی کہ وہ اس وقت کہاں کہاں پر ہے۔ اور پھر وہ چپ انسان کےجسم کے اندر بھی لگنے لگی۔اور اب گورنمنٹ اسے انسان کے دماغ کے ساتھ منسلک کرنے کا سوچ رہی تھی۔ اور اسکا نتیجہ یہ ہوتا کہ ہماری سوچوں تک کی انہیں رسائی ہوجاتی۔ اپوزیشن نے اسکے خلاف کافی احتجاج بھی کیا تھا،اور فی الوقت اس کے فوائد اور نقصانات پر بحث جاری تھی۔
اور اب یہ روبوٹ بھی اپنے سپیشل گلاسس کی وجہ سے دیوار کے آرپار دیکھ سکتے تھے ۔
سر آپ سوچوں میں وقت ضائع کر رہے ہیں۔ جماعت میں 10 منٹ رہ گئے ہیں۔
میں جلدی سے واش روم سے باہر آیا اور مسجد کو چلا گیا۔
واپس آیا تو روبوٹ نے ناشتہ تیا ر کرکے رکھا ہوا تھا۔ناشتہ کافی مزیدار تھا۔اور میری پسند کا تھا۔ کیونکہ روبوٹ نے کل میرے بائیو ڈیٹا کو اینا لائیز (پرکھ کر)کرکے میری پسند اور نا پسند کو جانچ لیا تھا۔آج کل کے روبوٹ کافی بہتر ہوگئے تھے۔ کچھ سال پہلے یہ صرف ہاں یا ناں جانتے تھے۔ پھر چیزوں کوپرکھنے اور اسے سمجھنے کی استعداد بھی انکے اندر پیدا ہوگئی تھی۔ بظاہر یہ کافی حد تک انسان کے سوچنے کی حد کے قریب ہوگئے تھے ۔ لیکن خود سے سوچنے کی استعداد ابھی تک سائنسدان، ان میں پیدا نہیں کر پائے تھے۔
ناشتے کے کچھ دیر بعد روبوٹ میری فیورٹ ڈریس لے آیا
سر یہ ڈریس آج کی میٹنگ کے لئے بیسٹ رہے گے۔ٹھیک ہے۔
اور سر آپکی سپر آئیر بائیک چیک کی ہے۔ اوکے ہے۔ فیول کچھ کم تھا ، وہ میں نے اس میں ڈال دیا ہے۔
ڈریس چینج کرنے کے بعد ڈیجیٹل ائر پیس کانوں میں لگا لیا جو بالکل ایک چھوٹے سے بٹن کے برابر تھا۔ اور اس سے میں اپنے ڈیجیٹل ہینڈ ، ربن سے منسلک ہوجاتا تھا۔ڈیجیٹل ہینڈ ، ربن اصل میں سمارٹ فون تھا، پہلے یہ ٹچ سکرین کے ساتھ آتا تھا۔ لیکن اب اسکے لئے کسی بھی ایکسٹرا آلات کی ضرورت نہیں تھی۔ اسمیں ایک چھوٹی سی چپ ہوتی تھی ۔ جس کو میں ہاتھ پر باندھ کر رکھتا تو یہ ایک سمارٹ فون کی طرح کام کرتا تھا۔ اور آفس میں ، میں اسے ایک لیپ ٹاپ کے طور پر استعمال کرتا تھا۔مونیٹر اور ٹی وی سکرین کی تو اب ضرورت ہی نہیں رہی تھی۔ آپ کے سامنے ڈیجیٹل سکرین شو ہو جاتی تھی۔ جو پروجیکٹر کی طرح صرف روشنی آپ کے سامنے بکھیر دیتی اور آپ کے سامنے لائیو سکرین شو ہو جاتی جس پر آپ اپنا کام کرتے۔اسے آپ تھری ڈی موڈ میں بھی تبدیل کر سکتے تھے۔ اس طرح سے پوری سکرین آپ کے سامنے آپ کی ٹیبل پر پھیل جاتی اور آپ کسی بھی چیز کو کسی بھی زاویے سے دیکھتے تھے۔
آفس میں کام تو زیادہ ہوتا نہیں تھا ۔اسلئے دو تین گھنٹے میں کام نمٹا کر میں انٹرنیٹ پر سرفنگ کرنے میں لگ جاتا۔ فیس بک کھولی۔ تو عامر اقبال اور تنویر ںاڈلہ سیارہ مریخ پر پہنچے ہوئے تھے۔ عامر بھائی مریخ پر ایک ہوٹل سے لائیو تھے۔ اور تنویر بھائی مریح کی جنوبی طرف کسی پہاڑی سلسلے کی طرف ہائیکنگ کر رہے تھے۔ اور عبدالولی بھائی کافی مہینوں سے کسی نئے سیارے ہوکو ملوکو کی طرف گئے ہوئے تھے جو حال ہی میں دریافت ہوا تھا۔ مریح تو وہ دو تین بار گئے ہوئے تھے۔ اپنے بلاگ زما سفر دے مریح ڈاٹ کام میں انہوں نے اپنے سفر اور اخراجات کے بارے میں تفصیل سے بتایا تھا۔ اور اس بار اگلے مہینے میرا بھی مریح پر جانےکا پروگرام بن رہا تھا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔
از قلم: مراد خان

اپنا تبصرہ بھیجیں